اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے 20-21 اگست 2025 کو نیویارک میں منعقدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں سیکریٹری جنرل کی 21ویں رپورٹ پر خطاب کرتے ہوئے عالمی دہشتگردی اور داعش سے لاحق خطرات کے حوالے سے ایک سخت اور دوٹوک مؤقف پیش کیا۔
انہوں نے آغاز میں صدرِ اجلاس، انڈر سیکریٹری جنرل ولادیمیر وورونکو، کاؤنٹر ٹیررازم ایگزیکٹو ڈائریکٹوریٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نتالیہ گہرمن اور فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی صدر ایلیسا دے آندا مادرازو کا شکریہ ادا کیا۔
پاکستان کی قربانیاں اور عالمی دہشتگردی
پاکستانی مندوب نے عالمی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمجھ سے بالاتر اور ناقابلِ قبول ہے کہ سلامتی کونسل کی دہشتگردی کی فہرست میں ہر نام مسلمان ہے جبکہ دنیا کے دیگر دہشتگرد اور شدت پسند اس کڑی جانچ سے بچے ہوئے ہیں۔ فہرست میں کوئی غیر مسلم موجود نہیں۔ یہ طرز عمل بدلنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ چند ہی ممالک نے عالمی انسدادِ دہشتگردی کی کامیابی کے لیے اتنی قربانیاں دی ہیں، اور چند ہی ایسے ہیں جنہوں نے اس جنگ میں اتنا خون بہایا ہے۔” یاد دہانی کراتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی اور سینکڑوں ارب ڈالر کے معاشی نقصان اٹھائے۔ پاکستان نے القاعدہ کو شکست دینے میں کلیدی کردار ادا کیا اور آج بھی داعش اور اس کے علاقائی نیٹ ورکس بشمول تحریک طالبان پاکستان، بلوچ لبریشن آرمی اور مجید بریگیڈ کے خلاف ڈٹا ہوا ہے۔
Statement by Ambassador Asim Iftikhar Ahmad
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) August 20, 2025
Permanent Representative of Pakistan to the UN
At UN Security Council Briefing on “Threats to international peace & security caused by terrorist acts”
(20th August 2025)
********
Thank you Mr. President,
I also like to thank Under… pic.twitter.com/VdjtbZjnMd
دہشتگردی پر یکطرفہ رویہ
عاصم افتخار نے سلامتی کونسل کی دہشتگردی کی فہرستوں کے یکطرفہ اطلاق کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی کو کسی مذہب، قومیت، تہذیب یا نسلی گروہ سے جوڑا نہیں جا سکتا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ افریقہ، بالخصوص مغربی افریقہ اور ساحل میں داعش کے گروہ تیزی سے اپنے نیٹ ورک پھیلا رہے ہیں اور عراق و شام میں تقریباً 3 ہزار جنگجو موجود ہیں، لیکن ان خطرات پر عالمی سطح پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جا رہی۔
#PakistanAtUNSC
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) August 21, 2025
Pakistan Urges Holistic Counter-Terrorism, Warns of Cross-Border & State-Sponsored Terrorism Threats
Our Press Release today pic.twitter.com/2ZBuL4mr3z
“پاکستان کے لیے خطرہ فوری اور سنگین ہے،” انہوں نے کہا، اور اس بات کی نشاندہی کی کہ تقریباً 6 ہزار دہشتگرد افغان سرزمین پر پناہ لیے ہوئے ہیں جو پاکستان کے امن و سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ انہوں نے شواہد دیے کہ کس طرح بی ایل اے اور مجید بریگیڈ پاکستان کے اندر اسٹرٹیجک انفراسٹرکچر، اقتصادی منصوبوں اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
افغانستان سے دہشتگردی کا خطرہ
انہوں نے کہا کہ افغانستان سے جنم لینے والی دہشتگردی “خطے اور دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ” ہے جہاں داعش خراسان، ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ جیسے گروہ چند علاقوں کو استعمال کرتے ہوئے حملوں کی منصوبہ بندی اور عمل درآمد کرتے ہیں۔
ڈیجیٹل دہشتگردی اور عالمی تعاون
مندوب احمد نے ڈیجیٹل دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرات پر بھی روشنی ڈالی، جس میں انتہا پسند گروہ سوشل میڈیا، انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے شدت پسندی، بھرتی اور پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان ڈیجیٹل نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے انٹرپول سمیت عالمی سطح پر مضبوط تعاون کیا جائے تاکہ دہشتگرد تنظیموں کی “ڈیجیٹل شریانیں” بند کی جا سکیں۔
ریاستی دہشتگردی اور مقبوضہ خطے
انہوں نے ریاستی دہشتگردی اور جبر پر بھی توجہ دلائی، خاص طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں، جہاں شہری آبادی اجتماعی سزا، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور جعلی انسدادِ دہشتگردی بیانیوں کا شکار ہے۔
پاکستان کی مزید قربانیاں اور بھارتی ریاستی دہشتگردی
انہوں نے یاد دلایا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد جانیں قربان کیں اور سیکڑوں ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا۔ پاکستان القاعدہ کو شکست دینے میں پیش پیش رہا اور آج بھی داعش اور اس کے اتحادی گروہوں سے برسرپیکار ہے۔
انہوں نے سانحات جیسے مارچ میں جعفر ایکسپریس پر حملہ (31 ہلاکتیں) اور مئی میں خضدار اسکول بس پر حملہ (10 ہلاکتیں جن میں 8 بچے شامل تھے) کو “چوری شدہ مستقبل” قرار دیا۔
بھارت کی ریاستی دہشتگردی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے پاکستان کے اندر بھارتی حملوں کا ذکر کیا، جن میں 6-7 مئی کے حملے شامل ہیں جس میں 54 شہری شہید ہوئے، جن میں 15 بچے اور 13 خواتین شامل تھیں۔
“جب ریاستی دہشتگردی انسدادِ دہشتگردی کے نام پر کی جاتی ہے تو سب سے پہلے عالمی امن اس کا شکار ہوتا ہے۔ سلامتی کونسل کو آنکھیں بند نہیں کرنی چاہئیں۔”
پانچ ترجیحات برائے انسدادِ دہشتگردی
افتخار احمد نے مؤثر عالمی انسدادِ دہشتگردی کے لیے پانچ ترجیحات پیش کیں
- دہشتگردی کی جڑوں پر قابو پانا، طویل المدتی حکمتِ عملی اور وہ محرکات ختم کرنا جو انتہا پسندی کو ہوا دیتے ہیں۔
- ریاستی دہشتگردی اور جبر کا خاتمہ، بالخصوص مقبوضہ کشمیر اور فلسطین جیسے معاملات جہاں قبضے کو انسدادِ دہشتگردی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
- دہشتگردی اور جائز جدوجہدِ آزادی کے درمیان فرق کو تسلیم کیا جائے۔
- اقوام متحدہ کی پابندیوں کے نظام کو نئی اور ابھرتی ہوئی دہشتگرد تنظیموں تک پھیلایا جائے اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوششیں ختم کی جائیں۔
- دہشتگردوں کے ہاتھوں میں موجود ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز پر عالمی سطح پر ریگولیشن اور سرحد پار قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تعاون بڑھایا جائے۔
اختتامی کلمات
انہوں نے کہا:
“جب ریاستی دہشتگردی انسدادِ دہشتگردی کے لبادے میں کی جاتی ہے تو سب سے پہلے عالمی امن اس کا شکار ہوتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردی کے خلاف کامیابی صرف اتحاد، تعاون اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری سے ممکن ہے، جبکہ دوہرا معیار اور سیاسی ایجنڈے اس جدوجہد کو ناکام بناتے ہیں۔
“دوہرے معیار اور سیاسی مفادات ہی دہشتگردی کے لیے آکسیجن ہیں۔ ہم دہشتگردی کو صرف اس وقت شکست دے سکتے ہیں جب ہم اسے مل کر اور انصاف کے ساتھ لڑیں۔”
دیکھیں: پاکستانی وفد کی تاشقند میں اعلیٰ سطحی ملاقاتیں، انسداد دہشتگردی میں تعاون پر زور دیا گیا