یہ کتاب انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اسٹڈیز اور یونیورسٹی آف لاہور کا مشترکہ تحقیقی منصوبہ ہے جس میں 19 محققین نے حصہ لیا۔ کتاب کی ادارت معروف اسکالر ڈاکٹر رابعہ اختر نے کی ہے

September 16, 2025

یاد ہے کہ پاکستان 57 اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی قوت سے اور کئی جنگوں کا تجربہ بھی رکھتا ہے۔ اس تناظر میں حالیہ صورتحال کے دوران پاکستان کا کردار مزید اہمیت کا حامل ہے

September 16, 2025

ٹی ٹی پی کے اس بیان میں وزیراعظم کے اس موقف کو بھی چیلنج کیا گیا جس میں افغان سرزمین کو “ٹی ٹی پی یا پاکستان” میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا کہا گیا تھا۔

September 16, 2025

پاکستان صدر شی جن پنگ کے عالمی ترقی، عالمی سلامتی، عالمی تہذیب اور عالمی حکمرانی کے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ انہی کی دور اندیش قیادت کے تحت پاکستان اور چین کے تعلقات غیر معمولی ترقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

September 16, 2025

بلوچستان کانفرنس میں ریاست مخالف بیانے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا جو مُلکی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے

September 16, 2025

پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان مطالبات کا شکار نہ ہو اور اپنی سلامتی کی پالیسی کو واضح اور دیرپا رکھے۔

September 16, 2025

کیا دہشتگردی کے خلاف جنگ کو اخلاقی جواز درکار ہے؟

پاکستان کی قربانیاں ایک ایسے بگڑے ہوئے عالمی نظام کو بے نقاب کرتی ہیں جہاں دہشتگردی کو سیاسی بنایا جاتا ہے، اسلاموفوبیا کو نظرانداز کیا جاتا ہے اور قبضوں کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔

1 min read

کیا دہشتگردی کے خلاف جنگ کو اخلاقی جواز درکار ہے؟

اگر دنیا دہشتگردی کے خطرے کا دیانتداری سے مقابلہ کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے اصولوں کو سب پر یکساں لاگو کرنے کی ہمت پیدا کرنا ہوگی۔ ورنہ انتہا پسندی ہمیشہ عالمی منافقت کی دراڑوں میں پروان چڑھتی رہے گی

August 22, 2025

ہندوکش کی ہوائیں امتیاز نہیں کرتیں۔ وہ کٹھن دروازوں اور زرخیز وادیوں سے یکساں گزر کر جدوجہد کی سرگوشیاں، مزاحمت کی کہانیاں اور دہشت کے سائے میں ضائع ہونے والی زندگیاں اپنے ساتھ لیے چلتی ہیں۔ انہی فضاؤں سے وابستہ خطے سے، جہاں تاریخ نے سلطنتوں کے تصادم اور تہذیبوں کے ملاپ کو دیکھا، پاکستان کے اقوام متحدہ میں مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے 20–21 اگست 2025 کو سلامتی کونسل کے اجلاس میں انسدادِ دہشتگردی میں عالمی دوہرے معیار پر ایک سخت کی۔

نائن الیون کے بعد کا دور اور پاکستان کی قربانیاں

نائن الیون کے بعد سے پاکستان دنیا کی “وار آن ٹیرر” اور تاثر کی سیاست کے درمیان پھنس گیا۔ چند ہی ممالک ہیں جنہوں نے پاکستان جتنا انسانی اور معاشی نقصان اٹھایا ہو۔ 80 ہزار جانیں، سینکڑوں ارب ڈالر کا نقصان اور کئی نسلیں جو دہشتگردی کے زخموں سے جکڑی گئیں۔ القاعدہ کو توڑنے سے لے کر داعش، تحریک طالبان پاکستان، مجید بریگیڈ اور بلوچ لبریشن آرمی تک، جو بھارتی ایجنسیوں سے منسلک ہونے اور سرحد پار تخریب کاری کی تاریخ رکھتی ہے، پاکستان ہمیشہ محاذ پر ڈٹا رہا ہے۔

“یعاصم افتخار نے کہا، مارچ میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ (31 افراد جاں بحق) اور مئی میں خضدار اسکول بس پر حملے (10 ہلاکتیں جن میں 8 بچے شامل تھے) کی مثالیں دیتے ہوئے کہ یہ محض مثالیں نہیں ہیں بلکہ ایک طویل داستان ہے۔

لیبلز کی سیاست اور اسلاموفوبیا کا سایہ

ایمبسڈر عاصم نے تقریر میں ایک دیرینہ ناانصافی پر بات کی اور وہ تھی دہشتگردی کی یکطرفہ تعریف۔
“سلامتی کونسل کی دہشتگردی کی فہرست میں ہر نام مسلمان ہے جبکہ غیر مسلم شدت پسند بچ نکلتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ رویہ بدلنا ہوگا۔”

نائن الیون کے بعد دہشتگردی کے عالمی بیانیے نے اکثر مذہب کے آئینے سے شدت پسندی کو دیکھا، جس سے تعصبات کو تقویت ملی اور سیاسی ایجنڈے چھپ گئے۔ پاکستان کو دوہرا چیلنج درپیش ہے: ایک طرف اپنی سرزمین پر دہشتگردی کا مقابلہ، اور دوسری طرف دنیا میں اسلام کو شدت پسندی سے جوڑنے کا بیانیہ۔ اس کے سنگین اثرات ہیں—پالیسی میں بھی اور عوامی رائے میں بھی: جائز انسدادِ دہشتگردی اقدامات پر تنقید ہوتی ہے جبکہ ریاستی جبر کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔

ریاستی دہشتگردی اور علاقائی سازشیں

عاصم افتخار نے نام لے کر ریاستی عناصر کی نشاندہی کی جو سرحد پار دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ بھارت کے کردار نے پاکستان میں ماورائے عدالت قتل اور حملوں کو جنم دیا، جن میں 6–7 مئی کے وہ حملے شامل ہیں جن میں 54 شہری، بشمول 15 بچے، شہید ہوئے۔ بی ایل اے جیسے گروہ افغانستان کے غیر حکومتی علاقوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جو پراکسی جنگ اور عالمی بے حسی کے خطرناک تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔

ڈیجیٹل محاذ

دہشتگردی اب سرحدوں تک محدود نہیں رہی۔ شدت پسند سوشل میڈیا، آئی سی ٹیز اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کر کے نوجوانوں کو شدت پسندی کی طرف مائل کرتے ہیں، بھرتی کرتے ہیں اور تشدد کی تعریف کرتے ہیں۔ پاکستانی مندوط نے واضح کیا کہ عالمی تعاون ناگزیر ہے—انٹرپول سے لے کر قومی سطح کے قانون نافذ کرنے والے اداروں تک—تاکہ دہشتگرد تنظیموں کی “ڈیجیٹل دہشت گردی” کو بند کیا جا سکے۔

انسدادِ دہشتگردی پر از سرنو غور

پاکستان نے محض آپریشنل حل نہیں بلکہ اخلاقی وضاحت کی ضرورت پر زور دیا۔ دنیا کو سب سے پہلے دہشتگردی کی جڑوں سے نمٹنا ہوگا: روک تھام، ترقی اور محرومیوں کا حل جو شدت پسندی کو ہوا دیتے ہیں۔ ساتھ ہی ریاستی دہشتگردی اور قبضوں پر خاموشی ختم کرنا ہوگی، چاہے وہ مقبوضہ جموں و کشمیر ہو یا فلسطینی علاقے، جہاں ظلم کو انسدادِ دہشتگردی کے لبادے میں چھپایا جاتا ہے۔

اہم فرق دہشتگردی اور غیر ملکی قبضے کے خلاف جائز جدوجہد کے درمیان کا ہے، جو اکثر عالمی بیانیے میں نظرانداز ہوتا ہے ۔ اقوام متحدہ کے موجودہ پابندیوں کے نظام پرانی سوچ پر قائم ہیں، نہ صرف نئے خطرات کو نظرانداز کرتے ہیں بلکہ اسلاموفوبیا کے داغ سے بھی داغدار ہیں، جہاں فہرستوں میں مسلمان نام تو موجود ہیں لیکن غیر مسلم شدت پسند غائب ہیں۔

اور اس دور میں جب دہشتگرد الگورتھمز میں بھی پنپتے ہیں اور میدان جنگ میں بھی، ڈیجیٹل ماحول کو منظم کرنا سرحدوں کی حفاظت جتنا ہی ضروری ہے۔

پراثر تقریر

پاکستانی مندوب کی تقریر اگرچہ نیویارک میں ہوئی، لیکن اس کی گونج سلامتی کونسل کے ایوان سے کہیں آگے تک پھیلی۔ اصل پیغام یہ تھا کہ انسدادِ دہشتگردی کو منتخب بنیادوں پر نہیں اپنایا جا سکتا۔ پاکستان کی سرحدوں پر المیے، کشمیریوں کی خاموش جدوجہد، فلسطینیوں کی گھٹن سب ایک بڑی منافقت کی گواہی دیتے ہیں۔ دہائیوں سے جنگیں چھیڑی گئیں، مداخلتیں جائز قرار دی گئیں اور پورے خطے عدم استحکام کا شکار ہوئے، لیکن دوہرے معیار بدستور قائم ہیں: قبضے کے خلاف مزاحمت کو دہشتگردی کہا جاتا ہے جبکہ ریاستی تشدد کو قانونی لبادہ پہنایا جاتا ہے۔

اخلاقی وضاحت کا امتحان

یہی وہ دراڑ ہے جس کی نشاندہی پاکستان عرصے سے کرتا آیا ہے۔ جب دنیا کے طاقتور ادارے سیاسی سہولت کے مطابق تعریفوں کو بدلتے ہیں، جب اسلاموفوبیا پابندیوں اور بیانیے کی تشکیل کرتا ہے، تو اجتماعی سلامتی کا مقصد کھوکھلا ہو جاتا ہے۔

دہشتگردی ایک حقیقت ہے—پاکستان نے اتنا لہو بہایا ہے کہ اس کی گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اسی طرح کابل سے غزہ تک اور سرینگر سے رفح تک کا ظلم بھی حقیقت ہے۔

ہندوکش کا علاقہ ہمیں ایک سادہ سی بات سکھاتا ہے: طوفان سرحدوں کو نہیں مانتے۔ اگر دنیا دہشتگردی کے خطرے کا دیانتداری سے مقابلہ کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے اصولوں کو سب پر یکساں لاگو کرنے کی ہمت پیدا کرنا ہوگی۔ ورنہ انتہا پسندی ہمیشہ عالمی منافقت کی دراڑوں میں پروان چڑھتی رہے گی۔

دیکھیں: دہشت گردی کے خلاف پاکستان دنیا کے شانہ بشانہ کھڑا ہے؛ پاکستان کا دوٹوک مؤقف

متعلقہ مضامین

یہ کتاب انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اسٹڈیز اور یونیورسٹی آف لاہور کا مشترکہ تحقیقی منصوبہ ہے جس میں 19 محققین نے حصہ لیا۔ کتاب کی ادارت معروف اسکالر ڈاکٹر رابعہ اختر نے کی ہے

September 16, 2025

یاد ہے کہ پاکستان 57 اسلامی ممالک میں واحد ایٹمی قوت سے اور کئی جنگوں کا تجربہ بھی رکھتا ہے۔ اس تناظر میں حالیہ صورتحال کے دوران پاکستان کا کردار مزید اہمیت کا حامل ہے

September 16, 2025

ٹی ٹی پی کے اس بیان میں وزیراعظم کے اس موقف کو بھی چیلنج کیا گیا جس میں افغان سرزمین کو “ٹی ٹی پی یا پاکستان” میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا کہا گیا تھا۔

September 16, 2025

پاکستان صدر شی جن پنگ کے عالمی ترقی، عالمی سلامتی، عالمی تہذیب اور عالمی حکمرانی کے اقدامات کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ انہی کی دور اندیش قیادت کے تحت پاکستان اور چین کے تعلقات غیر معمولی ترقی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

September 16, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *