جرمنی نے پاکستان کی جانب سے 211 افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری پر تشویش ظاہر کی ہے، حالانکہ یہ افراد برلن کے انسانی ہمدردی پر مبنی پروگرام کے تحت اہل قرار دیے جا چکے تھے۔ تاہم جرمنی نے 2025 کے انتخابات کے بعد اسی پروگرام کو معطل کر دیا، جس کے باعث ہزاروں افغان پاکستان اور افغانستان میں پھنس گئے۔
یہ اقدام جرمنی کے وعدوں اور ذمہ داریوں پر سوال اٹھاتا ہے۔ ایک طرف برلن پاکستان پر تنقید کرتا ہے جبکہ دوسری جانب خود افغان شہریوں کو زبردستی افغانستان واپس بھیج رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ رویہ واضح طور پر دوہرے معیار کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستان نے بین الاقوامی برادری کے اصرار پر افغان پناہ گزینوں کی واپسی کی آخری تاریخ تین بار بڑھائی، لیکن مستقل بنیادوں پر ایسا کرنا ممکن نہیں۔ حکام کے مطابق ملک سکیورٹی اور دہشت گردی کے حقیقی خطرات کا سامنا کر رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ افغان سرزمین کا دہشت گردی کیلئے استعمال ہونا ہے، جبکہ یورپ معمولی امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی پر بھی افغانوں کو ملک بدر کر دیتا ہے۔
پہلی جرمن حکومت نے نیٹو اور امریکی آپریشنز سے وابستہ 2,000 افغانوں کو بسانے کا وعدہ کیا تھا، مگر موجودہ قیادت اس وعدے کو پورا کرنے میں ناکام رہی۔ ناقدین کے مطابق انسانی ہمدردی کے نام پر بنائے گئے پروگرام کو معطل کرنا دراصل ایک غیر اعلانیہ “ریفیوجی بین” کے مترادف ہے۔
پاکستان گزشتہ چار دہائیوں سے لاکھوں افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی ریاستوں کو الزام تراشی کے بجائے ایک واضح اور مستقل پالیسی اختیار کرنی چاہیے تاکہ ان افغان شہریوں کو تحفظ مل سکے جنہیں پہلے ہی پناہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
دیکھیں: افغان مہاجرین کے متعلق پاکستان کی پالیسی پر جرمنی نے تحفظات کا اظہار کردیا