پاکستان میں ہر سال لاکھوں خواتین بہتر تعلیم، روزگار اور خودمختاری کے خواب لیے دیہی علاقوں سے شہروں کا رُخ کرتی ہیں۔ آبادی کا 63 فیصد حصہ دیہاتوں پر مشتمل ہے، مگر قومی سروے کے مطابق شہروں میں رہنے والی خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت 33٪ تک پہنچ چکی ہے، جبکہ دیہی خواتین کی شمولیت اب بھی محض 16٪ہے ۔ یہ صرف جغرافیہ کا فرق نہیں — یہ مواقع، طرزِ فکر، نقل و حرکت اور ‘‘عورت کے حقِ انتخاب’’ کا ایسا خاموش فاصلہ ہے جو ہماری ترقیاتی پالیسیوں اور صنفی مباحث میں سنجیدہ توجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔
گجرات کی اسماء طارق کے لیے یہ فرق صرف شہر بدلنے کا نہیں تھا، یہ خوابوں کی سمت بڑھنے کی جدوجہد تھی۔۔۔
‘‘گاؤں کی زندگی سادہ تھی مگر امکانات محدود۔ پانچ سال بعد انہوں نے اسلام آباد کا رخ کیا جہاں آزادی تو ملی، مگر ہر سہولت ایک قیمت کے ساتھ آئی — یہاں تنہائی میں حوصلہ اور ہر قدم پر خودانحصاری ضروری ہے۔۔’’
پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کے مطابق شہری خواتین کا تعلیم تک رسائی کا تناسب 71٪ ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 46٪ رہ جاتی ہے۔ یہی تعلیمی خلا آگے چل کر پیشہ ورانہ مواقع کی کمی میں بدل جاتا ہے۔
اسلام آباد سے ساہیوال آنے والی صحافی سعدیہ مظہر بتاتی ہیں کہ یہاں صحافت میں خواتین کے لیے جگہ ہی نہیں۔ بڑے چینلز کو چھوٹے شہروں کی کہانیاں متاثر کن نہیں لگتیں، اس لیے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ جو لباس میں لاہور میں پہن سکتی تھی، وہ یہاں ممکن نہیں — دوپٹہ لیے بغیر نکلنا معاشرتی نفرت کو دعوت دینا ہے۔۔
پاکستان میں صرف 14٪ دیہی خواتین ایسے پیشوں سے منسلک ہیں جو زراعت کے علاوہ ہوں، جبکہ شہروں میں خواتین باقاعدہ طور پر کارپوریٹ، میڈیا، آئی ٹی اور کاروبار تک رسائی حاصل کر رہی ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی ہدٰی کے مطابق:
‘‘شہروں میں تعلیم، تقریبات، ایکسپوژر اور ٹرانسپورٹ نے مجھے نہ صرف آزادی دی بلکہ خود کو منوانے کے مواقع بھی ملے۔ جبکہ دیہات میں نقل و حرکت پر پابندیاں، کم تعلیمی ادارے اور ہر قدم پر سماجی پاپندیوں کا خوف خواتین کو آگے بڑھنے نہیں دیتا۔’’
‘‘خواتین کیلئے شہر میں ٹرانسپورٹ سب سے بڑی رکاوٹ ہے — مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ملازمتیں صرف ٹیچنگ یا کلریکل شعبوں تک محدود سے بھی لڑنا پڑتا ہے کہ عورت گھر سے باہر کیوں ہے۔’
شہری خواتین کے پاس اگرچہ تعلیمی ادارے، روزگار، ٹیکنالوجی اور کے زیادہ وسائل موجود ہیں، مگر یہ وسائل ذمہ داری اور مقابلے کی شدید فضا کے ساتھ آتے ہیں۔ دوسری طرف دیہی خواتین کے پاس کمیونٹی سپورٹ، رشتہ داری اور اجتماعی تہذیب کی طاقت ہے لیکن مواقع نہ ہونے کے برابر۔ یہ خاموش فرق دراصل فیصلہ سازی، معاشی خودمختاری اور صنفی طاقت کی تقسیم کا فرق ہے۔
اگر پاکستان خواتین کو قومی معیشت کا حقیقی حصہ بنانا چاہتا ہے تو دیہی علاقوں میں سیکنڈری تعلیم اور اسکِل بیسڈ سینٹرز بڑھانے ہوں گے اور محفوظ ٹرانسپورٹ اور ڈے کیئر سسٹم ہر سطح پر قائم کرنے ہوں گے۔
کیونکہ جیسا کہ اسماء طارق نے کہا: ‘‘چاہے شہر ہو یا گاؤں — اصل طاقت ہمت ہے، اور عورت کو آگے بڑھنے کے لیے مسلسل ہمت وکوشش جاری رکھنی ہو گی۔
دیکھیں: افغان طالبان کے چار سالہ دور حکومت: امن، معیشت اور خواتین کے حقوق پر ایک نظر؟