پاکستانی نژاد رکن پارلیمنٹ شبانہ محمود کو برطانیہ کی وزیر داخلہ بنا دیا گیا ہے۔ یہ تقرری نائب وزیراعظم انجیلا رینر کی جانب سے نئے گھر پر جائیداد ٹیکس کم ادا کرنے کی غلطی پر گہری ندامت ظاہر کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کے بعد جمعے کو کابینہ میں ردوبدل کے بعد کی گئی ہے۔ شبانہ محمود وزیرانصاف کے طور پر فرائض انجام دے رہی تھیں۔
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے انجیلا رینر کے استعفے کے بعد اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ردوبدل کرتے ہوئے نئے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ بھی مقرر کیے ہیں۔
کیئر اسٹارمر نے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کو نائب وزیراعظم بنایا اور ان کی جگہ وزیر داخلہ یویٹ کوپر کو وزیر خارجہ مقرر کیا۔ یویٹ کوپر کی جگہ وزیر انصاف شبانہ محمود کو وزیر داخلہ بنایا گیا۔ یہ سب کیئر اسٹارمر کے قریبی اور قابل اعتماد ساتھی سمجھے جاتے ہیں۔
شبانہ محمود 17 ستمبر 1980 کو برمنگھم میں پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ کا نام زبیدہ اور والد کا نام محمود احمد ہے، جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع میرپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا خاندان 1981 سے 1986 تک سعودی عرب کے شہر طائف میں رہا، جہاں ان کے والد ڈی سیلینیشن کے شعبے میں سول انجینئر کے طور پر ملازمت کرتے تھے۔ بعد میں وہ واپس برطانیہ منتقل ہوئے اور برمنگھم میں ایک کارنر شاپ خریدی، جہاں ان کی والدہ کام کرتی رہیں۔
شبانہ کی پرورش برمنگھم میں ہوئی، انہوں نے سمال ہیتھ اسکول اور کنگ ایڈورڈ VI کیمپ ہل اسکول فار گرلز سے تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد مقامی لیبر پارٹی کے چیئرمین بنے تو کم عمری میں ہی انہوں نے بلدیاتی انتخابات کی مہمات میں ان کی مدد شروع کر دی۔
گزشتہ ہفتے معاشی مشاورت کو مضبوط بنانے کے لیے ڈاؤننگ اسٹریٹ کی ٹیم میں تبدیلی کے بعد ایک وزارتی ردوبدل متوقع تھا، لیکن انجیلا رینر کے استعفے نے اس ردوبدل کو کہیں زیادہ وسیع کر دیا۔
کیئر اسٹارمر اپنی نائب وزیراعظم رینر کو زیادہ نہیں بچا سکے کیونکہ برطانیہ کے آزاد مشیر نے فیصلہ دیا کہ انہوں نے درست ٹیکس ادا نہ کر کے وزارتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔
ایک لیبر رکنِ پارلیمنٹ نے کہا کہ’ انجیلا ایک بڑی شخصیت ہیں اور ان کا متبادل ڈھونڈنا مشکل ہے۔’ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ تینوں نئی تقرریاں اگرچہ غیر معمولی نہیں لیکن’ مضبوط’ ہیں۔
44 سالہ شبانہ محمود کو لیبر پارٹی میں ایک ’ محفوظ اور قابلِ بھروسہ شخصیت’ سمجھا جاتا ہے، جو ایک سنجیدہ سیاستدان ہیں اور جنہوں نے بطور وزیرِ انصاف جرات مندانہ فیصلے کرنے سے گریز نہیں کیا۔
ادھر لیمی کو نائب وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا لیکن انہیں وزارتِ خارجہ جیسا اہم قلمدان چھوڑ کر وزیرِ انصاف کے طور پر شبانہ محمود کی جگہ لینی پڑی۔
یویٹ کوپر، جو سابق وزیراعظم گورڈن براؤن کی حکومت میں بھی خدمات انجام دے چکی ہیں، لیبر پارٹی کی سینئر شخصیات میں سے ایک ہیں۔ ان کی نئی تقرری ایک طرح سے ترقی سمجھی جا رہی ہے، خاص طور پر اس پالیسی کی نگرانی کے بعد جس پر غیر قانونی مہاجرت سے نمٹنے میں کڑی تنقید ہوئی۔
کیئر اسٹارمر کے لیے وفاداری نہایت اہم ہے کیونکہ انہیں گزشتہ پچاس برسوں میں کسی بھی وزیراعظم سے زیادہ ، اپنے دور کے آغاز میں (حکومتی ردوبدل کے علاوہ) سب سے زیادہ وزارتی استعفوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
انجیلا رینر، جو 45 برس کی ہیں، اسٹارمر کی ٹیم سے رخصت ہونے والی آٹھویں اور سب سے سینئر وزیر تھیں۔ یہ استعفیٰ اسٹارمر کے لیے سب سے بڑا دھچکا ثابت ہوا کیونکہ انہوں نے ابتدا میں انجیلا رینر پر ٹیکس بچانے کے الزامات پر ان کا دفاع کیا تھا۔
انجیلا نے وزارت اور پارٹی کی نائب قیادت سے بھی استعفیٰ دے دیا، اور اب لیمی اس عہدے کے لیے سب سے مضبوط امیدوار سمجھے جا رہے ہیں۔
آزاد مشیر برائے وزارتی معیار نے کہا کہ انجیلا رینر نے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے کیونکہ انہوں نے وارننگ کے باوجود ٹیکس کے حوالے سے درست اقدام نہیں کیا، حالانکہ وہ دعویٰ کرتی رہیں کہ انہوں نے قانونی مشورے پر انحصار کیا۔
انجیلا رینر کے استعفے نے اسٹارمر پر مزید دباؤ بڑھا دیا ہے کیونکہ سروے میں لیبر پارٹی، نائجل فراج کی پاپولسٹ ریفارم یوکے سے پیچھے جا رہی ہے۔
اب اسٹارمر کو مشکل مالیاتی فیصلے کرنے ہیں کیونکہ پارٹی پہلے ہی اس پر تنقید کا نشانہ بنی ہے کہ اس نے ڈونرز سے قیمتی تحائف، کپڑے اور کنسرٹ ٹکٹ قبول کیے تھے، اور پھر انہیں فلاحی بجٹ میں کٹوتیوں کو نرم کرنا پڑا۔
ریفارم پارٹی کی برمنگھم میں ہونے والی کانفرنس کے پہلے روز، فراج نے اپنی تقریر تین گھنٹے پہلے کر دی تاکہ رینر کے استعفے پر بات کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ لیبر حکومت ’ سنگین بحران’ میں ہے اور اگلا الیکشن 2027 میں بھی ہو سکتا ہے، حالانکہ لیبر کو اپنی بڑی اکثریت کی وجہ سے 2029 تک انتخابات کرانے کی ضرورت نہیں۔
انجیلا رینر نے اپنا نیا گھر جنوبی انگلینڈ کے ساحلی علاقے ہوو میں اپنے بنیادی رہائش کے طور پر رجسٹر کیا تھا، جبکہ اپنے خاندانی گھر کا حصہ اپنے بیٹے (جو زندگی بھر معذوری کا شکار ہے) کے ٹرسٹ کو فروخت کر دیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں یقین تھا کہ دوسرا گھر خریدنے پر لگنے والے زیادہ ٹیکس ادا نہیں کرنا پڑیں گے۔ لیکن جب میڈیا رپورٹس نے یہ نکتہ اٹھایا کہ شاید انہوں نے 40 ہزار پاؤنڈ ٹیکس بچایا ہے، تو انہوں نے مزید قانونی مشورہ لیا اور تسلیم کیا کہ ان سے غلطی ہوئی ہے اور وہ اضافی ٹیکس ادا کریں گی۔
دیکھیں: پاک-چین تعلقات کا نیا دور، سی پیک 2.0 کے نئے مرحلے کے آغاز پر اتفاق کر لیا گیا