قطر میں ہونے والا عرب اسلامی ہنگامی سربراہی اجلاس اختتام پذیر ہو گیا۔ اجلاس میں پاکسان، سعودی عرب، ترکیہ اور ایران سمیت 50 سے زائد مسلم ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ اجلاس میں شریک تمام مسلم ممالک نے قطر اور فلسطین سے اظہار یکجہتی کا اعلان کیا اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔
مشترکہ اعلامیہ جاری
قطر میں ہونے والے عرب اسلامی ہنگامی سربراہی اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔
اعلامیہ کے مطابق اسرائیل کی قطر پر بربریت خطے میں امن کے امکانات کو تباہ کرتی ہے قطر پر اسرائیل کے بزدلانہ اور غیرقانونی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
اجلاس کے شرکا نے قطر کے ساتھ مکمل اظہاریکجہتی اور جوابی اقدامات کی حمایت کرتے ہوئے واضح کیا کہ غیرجانبدار ثالثی مرکز پر حملہ عالمی امن کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے، اسرائیلی بزدلانہ حملے سے نمٹنے میں قطر کے مہذب اور دانشمندانہ رویے کو سراہتے ہیں۔
اعلامیہ کے مطابق غزہ جنگ رکوانے کےلئے قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی کی کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، قطر کے تعمیری اور مؤثر ثالثی کردار اور سلامتی قائم کرنےکی کوششوں کو سراہاتے ہیں۔
شرکا نے دوٹوک پیغام دیا کہ کسی بھی جواز کے تحت اسرائیلی جارحیت کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا اسرائیل کی قطر کو دوبارہ نشانہ بنانےکی دھمکیوں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔
خلیجی ممالک کا دفاعی میکنزم فعال کرنے کا اعلان
خلیجی تعاون کونسل کی جانب سے “مشترکہ دفاعی میکنزم کو فعال کرنے” کا عزم اجلاس کا عملی نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ اجلاس قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی کی سربراہی میں ہوا، جنہوں نے اسرائیلی بمباری کو “کھلی، غدارانہ اور بزدلانہ” کارروائی قرار دیا۔
جی سی سی کے رکن ممالک — بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات — نے رکن ممالک کے سکیورٹی خدشات کے حل کے لیے ایک دفاعی معاہدہ تشکیل دیا ہے۔
امیر قطر کا بیان
عرب اسلامی ہنگامی سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے امیر قطر نے کہا کہ اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو دوحہ آمد پرخوش آمدید کہتا ہوں، اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی ہورہی ہے، اسرائیل نے انسانیت کے خلاف جرائم میں تمام حدیں پار کردیں۔
انہوں نے کہا کہ دوحہ میں اسرائیل کا حملہ بہت بڑی جارحیت تھی، اسرائیل نے قطر کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کی، قطر نے ثالث کے طور پر خطے میں امن کے لیے مخلصانہ کوششیں کیں، اسرائیل نے مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرتے ہوئے حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا۔
امیر قطر نے سوال کیا کہ اگر اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو قتل کرنا چاہتا ہے تو پھر مذاکرات کیوں؟ اگر آپ یرغمالیوں کی رہائی پر اصرار کرتے ہیں تو پھر وہ تمام مذاکرات کاروں کو کیوں قتل کر رہے ہیں؟ ہم اپنے ملک میں اسرائیل کے مذاکراتی وفود کی میزبانی کیسے کر سکتے ہیں جب کہ وہ ہمارے ملک پر فضائی حملے کے لیے ڈرون اور طیارے بھیجتے ہیں؟
شہباز شریف کا خطاب
وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ انسانیت کے خلاف جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لانا ہو گا، اقوام متحدہ میں اسرائیل کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز کے حامی ہیں۔
وزیراعظم نے قطر کے دارالحکومت دوحا میں منعقدہ عرب اسلامک سمٹ کے اجلاس ے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک اہم اور افسوسناک واقعے کے تناظر میں اکٹھے ہوئے ہیں اسرائیل نے ہمارے برادر ملک قطر کی خودمختاری اور سلامتی کی خلاف ورزی کی ہے۔
وزیراعظم نے واضح کہا کہ پاکستان قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اسرائیل کا قطر پر حملہ جارحانہ اقدامات کا تسلسل ہے اسرائیلی جارحیت کے ذریعے امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے اس جارحیت کے بعد سوال ہےکہ اسرائیل نے مذاکرات کا ڈھونگ کیوں رچایا؟
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانا قابل مذمت ہے غزہ میں انسانیت سسک رہی ہے غزہ میں شہری آبادی کو فوری اور ہنگامی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیں ہم نے اجتماعی دانش سے اقدامات نہ کیے تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
اسحاق ڈار کا عملی اقدامات کی ضرورت پر زور
نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈارنے کہا کہ افسوسناک ہوگا اگر عرب اسلامی سربراہی کانفرنس صرف تقریروں پر ختم ہوگی۔
اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ دنیا کے دو ارب مسلمانوں کی نظریں عرب اسلامی سربراہی اجلاس پر لگی ہوئی ہیں، اگر اجلاس صرف تقریروں تک محدود رہا تو یہ افسوسناک ہوگا۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ مسلم امہ کی خواہش پر مشترکہ سیکیورٹی فورس کیوں نہیں بنائی جا سکتی؟ امت مسلمہ اب عملی اقدامات کی توقع رکھتی ہے، اسرائیل کے خلاف واضح لائحہ عمل نہ دیا گیا تو لوگ مایوس ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک اہم ایٹمی قوت کی حیثیت سے مسلم امہ کے لیے اپنے فرائض انجام دیتا رہے گا اور امت کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔
ترک صدر کا خطاب
ترک صدر رجب طیب اردوان نے اسلامی ممالک کو ترقی کے لیے مشترکہ تعاون بڑھانے اور اسرائیل پر معاشی دباؤ ڈالنے پر زور دیا ہے۔
دوحا میں عرب اسلامی کے ہنگامی سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر نے کہا کہ اسرائیل پر معاشی دباؤ ڈالنا ہو گا ماضی نے ثابت کیا دباؤ مؤثر ہوتا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ عرب اور اسلامی دنیا کو ترقی کے شعبوں میں خودکفیل ہونا ہو گا اور ترقی کے متعدد شعبوں میں تعاون کو تیز کرنا ہو گا، ساتھ ہی اسلامی ممالک میں مشترکہ تعاون کے میکنزم قائم کرنےکی ضرورت ہے۔
ترک صدر نے واضح کیا کہ بڑھتی ہوئی اسرائیلی جارحیت براہ راست خطے کیلئے خطرہ ہے اسرائیلی جارحیت اب قطر تک پہنچ گئی ہے جو امن کیلئے ثالثی کر رہا تھا امید ہے آج کے فیصلے دنیا کو واضح پیغام دینے والی تحریری قرارداد بنیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو حکومت فلسطینی عوام کا قتل عام جاری رکھنا چاہتی ہے اور خطے کو انتشار اور افراتفری میں دھکیلنا چاہتی ہے، اسرائیلی سیاستدان اب بھی گریٹر اسرائیل کے فریب دہ تصورات دہرا رہے ہیں اسرائیلی حکام کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ہو گا، عالمی قانونی طریقہ کار کے تحت اسرائیلی قیادت کا احتساب ضروری ہے۔
اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت معطل کرنے کی تجویز
اسرائیل کو جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر جوابدہ بنایا جانا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے اجلاس میں اسلامی ممالک کے خلاف اسرائیلی مظالم پر احتساب، اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف عرب اسلامی ٹاسک فورس کی تشکیل کی سفارش کی گئی۔
اجلاس میں او آئی سی کی سفارش کے مطابق اسرائیل کی اقوام متحدہ کی رکنیت کی معطلی، رکن ممالک کی جانب سے تعزیری اقدامات، سلامتی کونسل کی طرف سے مستقل جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی اور قیدیوں کے تبادلے، غزہ میں انسانی امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی اور دو ریاستی حل کے لیے بامقصد مذاکراتی عمل کی بحالی جیسے اقدامات تجویز کیے گئے۔
دیکھیں: قطر کے بعد ترکی؟ اسرائیلی میڈیا نے ترکی کو اسرائیل کا اگلا مبینہ نشانہ قرار دے دیا