افغانستان پر چہار فریقی اتفاق رائے کا ابھرنا خطے کی سفارت کاری میں ایک اہم موڑ ہے۔ نیویارک میں چین، ایران، پاکستان اور روس کے وزرائے خارجہ کی ملاقات محض رسمی بیان بازی نہیں تھی بلکہ کابل کے لیے ایک واضح پیغام تھی: دنیا دہشت گردی، منشیات اور ناقص حکمرانی کو مزید برداشت نہیں کرے گی۔
پاکستان نے اس اجلاس میں جس شدت سے اپنے تحفظات اٹھائے وہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان، داعش خراسان اور دیگر گروہ اب بھی افغان سرزمین سے پاکستان کے امن کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جب تک کابل ان نیٹ ورکس کے خلاف عملی اور قابلِ تصدیق کارروائی نہیں کرتا، خطے میں تجارت، توانائی کے منصوبے اور اقتصادی انضمام خواب ہی رہیں گے۔
افغانستان کی موجودہ حکومت اپنی داخلی ساکھ کو بہتر کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی اور خواتین و بچیوں کی تعلیم اور روزگار کے حق کو یقینی بنائے بغیر نہ تو بین الاقوامی اعتماد ملے گا اور نہ ہی خطے کا تعاون۔
منشیات کی بڑھتی ہوئی پیداوار، خاص طور پر میتھ ایمفیٹامائن، صرف پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کے لیے خطرہ ہے۔ کابل کو اس کالی معیشت کے خلاف سخت پالیسی اپنانی ہوگی۔
عالمی برادری کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ افغان پناہ گزینوں کا بوجھ پاکستان اور ایران پر غیر متناسب حد تک پڑا ہے۔ اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے فوری، پائیدار اور شفاف مالی تعاون ضروری ہے۔
افغانستان کا مستقبل صرف اسی وقت محفوظ ہو سکتا ہے جب وہ خطے کے ہمسایہ ممالک کے خدشات کو سنجیدگی سے لے اور عملی اقدامات کے ذریعے اعتماد بحال کرے۔ ورنہ کابل کے دعوے محض الفاظ رہیں گے۔
دیکھیں: امید کرتے ہیں افغان حکومت دہشتگرد گروہوں کیخلاف کارروائی کرے گی؛ شہباز شریف