پشاور میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا کہ ’’ہم کسی بھی قسم کے آپریشن کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی اس کے حق میں ہیں، کیونکہ ہم پہلے ہی دہشت گردی کی جنگ میں 80 ہزار جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔‘‘
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق یہ مؤقف طالبان کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع دے سکتا ہے۔ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ہونے والے تمام معاہدے، چاہے وہ 2004، 2009، 2014 یا 2021–22 ہوں، بالآخر ناکام ثابت ہوئے اور شدت پسندوں نے ان وقفوں کو ازسرنو منظم ہونے کے لیے استعمال کیا۔
اعداد و شمار کے مطابق صرف 2023 سے 2025 کے درمیان ٹی ٹی پی نے خیبر پختونخوا میں سینکڑوں حملے کیے جن میں عام شہری، پولیس اہلکار اور فوجی جوان نشانہ بنے۔ آزادانہ رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ یہ گروہ افغان پناہ گاہوں سے منظم ہو کر سرحد پار کارروائیاں کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کوئی اختیاری پالیسی نہیں بلکہ پاکستان پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت لازم ہے کہ وہ کالعدم گروہوں کے خلاف کارروائی کرے۔
ناقدین یاد دلاتے ہیں کہ ماضی میں پی ٹی آئی حکومتوں نے ’’مصالحت‘‘ کے نام پر طالبان کو جگہ دی، جس سے صوبے کی سکیورٹی مزید خراب ہوئی۔ عوامی رائے واضح ہے کہ خیبر پختونخوا کے لوگ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اسکولوں پر حملوں سے تحفظ چاہتے ہیں، نہ کہ شدت پسندوں کو رعایت۔
تجزیہ کاروں کے مطابق گنڈا پور کا یہ بیان قومی سلامتی کے مسئلے کو سیاسی نعرے بازی میں بدلنے کے مترادف ہے، جو طالبان نواز بیانیے کو تقویت دیتا ہے اور اس سے براہِ راست فائدہ پاکستان دشمن قوتوں کو پہنچتا ہے۔
دیکھیں: وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کا وادی تیراہ کا دورہ، متاثرین سے تعزیت