مزاحمتی تحریک (حماس) کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیا گیا اعلامیہ بلاشبہ موجودہ جنگ کے آغاز کے بعد سے سب سے اہم سفارتی پیش رفت ہے۔ حماس نے، جیسا کہ اس نے خود کہا، “جارحیت اور نسل کشی کی جنگ کو روکنے کی خواہش” کے تحت، باضابطہ طور پر ٹرمپ امن منصوبے پر اپنا جواب پیش کیا ہے۔ اس میں حماس نے اعلان کیا ہے کہ وہ تمام اسرائیلی قیدیوں — زندہ یا مردہ — کی رہائی کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ جنگ مکمل طور پر ختم کی جائے، امداد فوری طور پر پہنچائی جائے اور غزہ پر دوبارہ قبضہ نہ کیا جائے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ حماس نے اپنی انتظامی ذمہ داری ایک غیر جانبدار فلسطینی تکنوکریٹ حکومت کے سپرد کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ یہ کسی جزوی یا مشروط جنگ بندی نہیں، بلکہ ایک ایسی پیشکش ہے جو ان کے سیاسی اور انتظامی کنٹرول کے خاتمے کے مترادف ہے — اور ساتھ ہی ان کا سب سے قیمتی اثاثہ، یعنی قیدیوں کی رہائی۔
ٹرمپ کا فوری ردِعمل اور دباؤ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو اس منصوبے کے محرک ہیں، نے فوری ردِعمل دیتے ہوئے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا:
“حماس کے جاری کردہ بیان کی بنیاد پر، میرا یقین ہے کہ وہ پائیدار امن کے لیے تیار ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا:
“اسرائیل کو فوراً غزہ پر بمباری روکنی چاہیے تاکہ ہم قیدیوں کو محفوظ اور جلد واپس لا سکیں!”
یہ ٹرمپ کی لین دین پر مبنی سفارت کاری کا شاہکار قدم تھا۔ ایک جانب انہوں نے حماس کے امن ارادے کو تسلیم کیا، دوسری جانب اسرائیل پر فوری دباؤ ڈال دیا۔ اس سے دو بڑے نتائج نکلے:
اول، ٹرمپ کے امن منصوبے کی افادیت ثابت ہوئی؛
دوم، اب اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اس کی سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری اسرائیلی حکومت پر عائد ہوگی۔
اب صورتحال یہ ہے کہ جاری جنگی کارروائیاں قیدیوں کی محفوظ رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔
حماس کیلئے بڑی رعایتیں
حماس کے لیے یہ اعلامیہ بقاء کی ایک حکمت عملی ہے۔ اس میں دی گئی رعایتیں واضح کرتی ہیں کہ تنظیم نے نظریاتی سختی سے ہٹ کر سیاسی حقیقت پسندی اختیار کر لی ہے۔ تمام قیدیوں کی رہائی ایک انسانی بنیاد پر فیصلہ ہے۔
غزہ کی انتظامیہ ایک غیر سیاسی، آزاد فلسطینی ادارے کے سپرد کرنے کی پیشکش دراصل یہ تسلیم کرنا ہے کہ اب حماس کے لیے اقتدار برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔ اس سے اسرائیل کے اس دیرینہ ہدف — حماس کی حکومت کا خاتمہ — کو فوجی کے بجائے سیاسی دائرے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
تاہم، حماس نے چالاکی سے اپنے سیاسی مستقبل کے فیصلے کو “جامع فلسطینی قومی فریم ورک” کے ساتھ مشروط رکھا ہے، یعنی وہ حکومت سے پیچھے ہٹ رہی ہے مگر سیاست سے نہیں۔
فوری جنگ بندی کی ناگزیر ضرورت
اب گیند سفارتی ثالثوں، خصوصاً امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے کورٹ میں ہے۔ حماس نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے — اقتدار چھوڑ کر امن کے لیے میدان ہموار کر دیا۔
اگر اب مکمل اور فوری جنگ بندی نہ ہوئی تو یہ تاثر مضبوط ہوگا کہ جنگ کے اصل مقاصد کچھ اور ہیں۔ قیدیوں کی رہائی کے لیے جو شرائط طے کی گئی ہیں، وہ اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتیں جب تک بمباری جاری ہے۔
اگر اسرائیل نے اس موقع پر جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تو اسے نہ صرف اخلاقی بلکہ عالمی سطح پر سفارتی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ ٹرمپ کے دوٹوک بیان نے یہ طے کر دیا ہے کہ تاریخ ذمہ داری کا تعین واضح طور پر کرے گی۔
یہ صرف حماس کو شکست دینے یا نہیں دینے کا معاملہ نہیں، بلکہ امن اور انسانی وقار کے انتخاب کا لمحہ ہے۔ قیدیوں کی واپسی اور ایک پائیدار جنگ بندی کا موقع موجود ہے — اسے ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔
دیکھیں: حماس کا ٹرمپ امن منصوبے پر مثبت ردعمل، امریکی صدر کا اسرائیل کو غزہ میں بمباری روکنے کا حکم