افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا بھارت کا چھ روزہ دورہ کئی حوالوں سے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ طالبان حکومت کے کسی وزیرِ خارجہ کا اب تک کا طویل ترین دورہ ہے، جو خطے میں ایک نئے سفارتی موڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ بھارتی میڈیا اسے “تاریخی موقع” قرار دے رہا ہے، لیکن پسِ پردہ اس دورے کے ساتھ بھارت کی ایک اور مہم ”پاکستان مخالف بیانیہ سازی” بھی شدت اختیار کر رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے انڈیا ٹوڈے نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ “اسلامک اسٹیٹ خراسان” کی سرگرمیاں پاکستان کے اندر سے چلائی جا رہی ہیں۔ یہ دعویٰ، جس کا کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کیا گیا، اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ سے براہِ راست متصادم ہے۔ سلامتی کونسل کی 35ویں مانیٹرنگ رپورٹ کے مطابق داعش کے مراکز دراصل افغانستان کے صوبوں ننگرہار، کنڑ، نورستان اور کابل میں موجود ہیں، جہاں ان کے تقریباً دو ہزار جنگجو سرگرم ہیں۔
یہ تضاد اتفاق نہیں۔ ماضی کی طرح بھارتی خفیہ ادارہ “را” اپنی پراپیگنڈا مہم کے لیے مخصوص میڈیا چینلز اور فرار دہشت گردوں کو استعمال کرتا آ رہا ہے۔ ٹی ٹی پی کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان، جو آرمی پبلک اسکول حملے جیسے سنگین جرائم میں ملوث رہا ہے، اب بیرونِ ملک بیٹھ کر بھارت کے بیانیے کو تقویت دے رہا ہے۔ حیرت انگیز طور پر بھارتی میڈیا انہی متنازع لوگوں کو “ذرائع” کے طور پر پیش کرتا ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ ایسے وقت میں جب افغانستان خود داخلی سلامتی کے بحران سے دوچار ہے، بھارت کیوں طالبان حکومت کے ساتھ رابطے بڑھا رہا ہے؟ اگر مقصد امن ہے تو پھر پاکستان مخالف بیانیے اور جھوٹے الزامات کی مہم کیوں؟ حقیقت یہ ہے کہ بھارت افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کے پردے میں اپنی پرانی حکمتِ عملی پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش کو آگے بڑھا رہا ہے۔
پاکستان کا موقف ہمیشہ واضح رہا ہے: دہشت گردی کسی ملک کے مفاد میں نہیں۔ پاکستان نے 94 ہزار جانوں کی قربانیاں دے کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی۔ زربِ عضب، ردالفساد اور اب عزمِ استحکام جیسے آپریشنز نے شدت پسند گروہوں کے نیٹ ورکس کو کمزور کیا۔ اس کے باوجود بھارت کی طرف سے پاکستان کو نشانہ بنانا دراصل زمینی حقائق سے نظریں چرانے کے مترادف ہے۔
عالمی برادری کو اس امر کا ادراک کرنا چاہیے کہ معلومات کی جنگ آج کے زمانے کا نیا ہتھیار بن چکی ہے۔ جھوٹے بیانیے، جعلی رپورٹس، اور دہشت گردوں کو میڈیا پلیٹ فارم فراہم کرنا کسی بھی ریاست کی اخلاقی ساکھ کو مجروح کرتا ہے۔
امیر خان متقی کا دورہ یقیناً علاقائی سیاست میں ایک اہم پیش رفت ہے، لیکن اگر بھارت اسے پاکستان مخالف پراپیگنڈا کو جواز دینے کے لیے استعمال کرتا ہے تو یہ امن کے لیے نہیں بلکہ انتشار کے لیے قدم ہوگا۔ خطے کے استحکام کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دے، اور بھارت اطلاعاتی جنگ کے بجائے ذمہ دار سفارت کاری اختیار کرے۔
جھوٹ عارضی فتح دلاتا ہے، لیکن سچ ہمیشہ دیرپا رہتا ہے — اور پاکستان کا مؤقف سچائی، قربانی اور اصولوں پر قائم ہے۔