افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے دورہ بھارت کی تفصیلات بیان کیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان اور بھارت کے درمیان تاریخی اور مذہبی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ متقی نے کہا کہ ان کی بھارتی وزیرِ خارجہ کے ساتھ ملاقات میں تجارت، معیشت، تعلیم اور دیگر امور پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ بھارتی وزارتِ خارجہ نے کابل میں اپنے سفارتی مشن کی حیثیت کو سفارت خانے کے درجے میں اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت افغان سفارت کار جلد ہی نئی دہلی میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
متقی نے کہا کہ بھارت نے افغانستان میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جو منصوبے ادھورے رہ گئے تھے، انہیں مکمل کیا جائے گا اور جو شروع نہیں ہو سکے، ان پر دوبارہ کام کیا جائے گا۔ صحت کے شعبے میں چھ نئے منصوبوں کے آغاز کا بھی اعلان کیا گیا۔
افغان وزیر خارجہ کے مطابق بھارت نے کابل اور دہلی کے درمیان براہِ راست پروازوں میں اضافے پر اتفاق کیا ہے، جبکہ کابل-امرتسر، قندھار-امرتسر، قندھار-دہلی، ممبئی-کابل، اور ممبئی-قندھار کے درمیان ایئر کارگو سروسز بھی بحال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعاون کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی کے قیام پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے ویزوں کی فراہمی میں سہولت دینے کی یقین دہانی کرائی، خاص طور پر صحت، تجارت اور تعلیم کے مقاصد کے لیے۔
مولوی امیر خان متقی نے کہا کہ افغانستان نے بھارت کو معدنیات، زراعت، صحت اور کھیلوں کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چابہار بندرگاہ کے مؤثر استعمال پر بھی بات ہوئی، اور اس پر عائد پابندیوں کے باوجود سہولیات کے قیام پر اتفاق کیا گیا۔ انہوں نے واہگہ بارڈر کو بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارت کے لیے تیز ترین راستہ قرار دیتے ہوئے اس کے کھلنے کی درخواست کی۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران بھارت میں قید افغان شہریوں کے مسئلے پر بھی بات چیت ہوئی، جن میں کچھ ضمانت پر رہا ہیں اور کچھ اب بھی زیرِ حراست ہیں۔ افغانستان نے ان کی وطن واپسی کے لیے تعاون کی درخواست کی۔
وزیر خارجہ نے اپنے وفد کے دارالعلوم دیوبند کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں انہوں نے علماء، طلبہ اور اساتذہ سے ملاقات کی اور تعلیمی تبادلوں کے فروغ پر بات چیت کی۔ ان کے مطابق افغانستان اور بھارت کے درمیان علما اور علمی اداروں کے تعلقات تاریخی ہیں اور ان کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بھارتی چیمبر آف کامرس کے نمائندوں سے بھی ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ افغانستان میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بات کی جا سکے۔ اسی طرح بھارت میں مقیم افغان باشندوں، تاجروں اور تارکین وطن کے مسائل پر بھی گفت و شنید کی جائے گی تاکہ ان کے مسائل کا حل نکالا جا سکے۔
پاکستان سے تعلقات کے بارے میں سوال پر مولوی متقی نے کہا کہ پاکستان میں اکثریت امن چاہتی ہے، تاہم کچھ عناصر تعلقات خراب کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان نے اپنا دفاع کیا، اپنے اہداف حاصل کیے اور قطر و سعودی عرب کی درخواست پر کارروائیاں روک دی گئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان بات چیت کا خواہاں ہے، لیکن اپنی خودمختاری کے تحفظ کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
خواتین کی تعلیم پر سوال کے جواب میں مولوی متقی نے کہا کہ افغانستان میں اس وقت ایک کروڑ طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جن میں 28 لاکھ خواتین اور بچیاں شامل ہیں۔ دینی مدارس میں بھی تعلیم کی سہولت گریجویشن کے درجے تک دستیاب ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مخصوص علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں میں عارضی پابندیاں ہیں، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم تعلیم کے مخالف ہیں۔ “ہم نے تعلیم کو حرام قرار نہیں دیا، بلکہ وقتی طور پر مؤخر کیا ہے۔”
انہوں نے پریس کانفرنس میں صحافیوں کی محدود شرکت سے متعلق سوال پر کہا کہ دعوت ناموں کی فہرست مختصر تھی اور یہ ایک تکنیکی معاملہ تھا، اس کے پیچھے کوئی دوسری نیت نہیں تھی۔
دیکھیں: افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا دار العلوم دیوبند کا دورہ، فقید المثال استقبال کیا گیا