حال ہی میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر خونریز جھڑپوں نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ دہشت گردی کا مسئلہ صرف اندرونی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر جڑا ہوا ہے۔ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی گمبھیر صورتِ حال، صوبائی حکومت کی کمزور کارکردگی اور افغان علاقے استعمال کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کا تعاون، یہ تمام عوامل مل کر عوام کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
ایک حالیہ واقعہ تحصیل کُرم میں پیش آیا جہاں افغان فورسز اور پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پاکستانی میڈیا رپورٹ کرتا ہے کہ افغان فورسز اور ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں نے پاکستان کے سرحدی ٹھکانے بغیر اشتعال کے نشانہ بنائے۔ پاکستان نے جواباً افغان ٹینکس اور چند اہلکاروں کو نشانہ بنایا اور ایک مبینہ ٹی ٹی پی تربیتی مرکز بھی تباہ کیا گیا۔
اسی ہفتے پاکستان نے سرحدی راستے، بشمول ٹورخم اور چمن، بند کر دیے۔ یہ اقدام افغان فوج کے مبینہ فضائی حدود کی خلاف ورزیوں اور پختہ شدہ اشتعال کے ردِعمل میں کیا گیا۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ افغان علاقے سے ملنے والی سہولتوں نے ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو آسان بنایا ہے۔
اسی دوران اقوامِ متحدہ کی رپورٹ اور دیگر سیکیورٹی ذرائع نے تصدیق کی کہ ٹی ٹی پی کے حملے پاکستان میں گزشتہ ایک سال میں 600 سے زائد ہوچکے ہیں، جن میں سے بہت سے افغان سرحدی علاقوں پر مبنی آپریشنز ہیں۔ افغان طالبان حکومت مبینہ طور پر ٹی ٹی پی کو مالی، لاجسٹک اور تربیتی معاونت فراہم کرتی ہے۔
سرحدی علاقوں میں دشمن کے ٹھکانوں اور عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد میں اضافے نے صوبائی حکومت کی ذمہ داری کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ عوام پوچھ رہی ہے کہ کیا سی ٹی ڈی لیبارٹریاں ایسی حالت میں فعال ہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھوس شواہد حاصل کیے جائیں؟ کتنے ملزمان نے سزا پائی ہے؟ کتنے سہولت کار اور سیاسی پشت پناہ پکڑے گئے ہیں؟ فوجی کارروائیوں کے باوجود دہشت گردی کی دوبارہ اور مسلسل واپسی کیا بتاتی ہے؟ یہ ثابت کرتی ہے کہ محض فوجی طاقت کافی نہیں، بلکہ ثابت شواہد، بھرپور انٹیلی جنس، سرحد کے انتظام اور مقامی عوام کا تعاون ناگزیر ہے۔
پختونخوا کی حکومت کو چاہیے کہ وہ نہ صرف فری بیانات دے بلکہ اعداد و شمار، پالیسیاں، اور شفاف رپورٹ عوام کے سامنے لائے۔ دہشت گردی صرف بندوق کا مسئلہ نہیں بلکہ ریاستی نظم، قانونی انصاف اور سرکاری زمہ داریوں کی ذمہ دارانہ ادائیگی کا بھی معاملہ ہے۔ اگر ریاست چاہتی ہے کہ عوام پر خوف نہ رہے، تب جا کر عوام کا اعتماد دوبارہ حاصل کیا جائے گا۔
ایسی قیادت ضروری ہے جو نہ صرف جنگی حکمتِ عملیاں طے کرے بلکہ امن اور اقتصادی ترقی کے مواقع بھی فراہم کرے—کیونکہ دہشت گردی کا سب سے بڑا نقصان وہ ہے جو عام آدمی اٹھائے، اور امن کے بغیر مشرقی خیبر پختونخوا کی شاندار ترقی محض ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔