پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ سرحدی جھڑپوں اور ان کے بعد ہونے والے دوحہ معاہدے نے خطے میں طاقت، سفارت کاری اور حقیقت پسندی کے ایک نئے دور کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان نے جہاں عسکری قوت کے ذریعے اپنی خودمختاری کا پیغام واضح کیا، وہیں قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں مذاکراتی عمل سے امن کی راہ بھی کھولی۔ یہ وہ توازن ہے جس کی بدولت اسلام آباد نے عملی اور سفارتی دونوں سطحوں پر اپنی پوزیشن مضبوط کی۔
پاکستان کی حالیہ حکمتِ عملی نے اس تاثر کو رد کر دیا کہ اسلام آباد صرف ردعمل دینے والی ریاست ہے۔ اس بار پاکستان نے نہ صرف دہشت گردوں کے مراکز پر درست اور بروقت کارروائیاں کیں بلکہ انہی حملوں کے بعد افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر واپس آنے پر مجبور بھی کیا۔ یہی وہ قوت اور تدبر کا امتزاج ہے جو علاقائی پالیسیوں میں پاکستان کی نئی سمت کی عکاسی کرتا ہے۔
افغان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا یہ اعتراف کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان مخالف گروہوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دے گا، دراصل اسلام آباد کے دباؤ اور مؤقف کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ برسوں سے پھیلائے گئے افغانستان کے “ناقابلِ شکست” ہونے کے تاثر کو اب زمینی حقائق نے بے نقاب کر دیا ہے۔ طاقت کے توازن کا محور اب محض نعروں میں نہیں بلکہ عملی فیصلوں میں منتقل ہو چکا ہے۔
تاہم احتیاط اب بھی لازم ہے۔ سردیوں کا موسم طالبان کے لیے ایک وقتی وقفہ فراہم کر سکتا ہے اور پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نہ صرف اپنی عسکری تیاری برقرار رکھے بلکہ سفارتی دباؤ کو بھی مؤثر انداز میں جاری رکھے۔
25 اکتوبر تک نافذ سیز فائر دراصل تین قوتوں، طالبان، بھارت اورثالث ممالک کے کردار کا امتحان ہے۔ اگر افغانستان واقعی اپنے وعدوں پر قائم رہا تو یہ ایک نئی شروعات ہو سکتی ہے۔ اگر نہیں، تو پاکستان کے پاس اب وہ صلاحیت اور ارادہ موجود ہے جو کسی بھی خلاف ورزی کا بھرپور جواب دے سکے۔
پاکستان کا مقصد واضح ہے: تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی قوت کو توڑنا اور خطے کو بتدریج استحکام کی طرف لے جانا۔ اگر یہ عمل تسلسل سے جاری رہا تو یہ دو دہائیوں کی بے یقینی کے بعد امید کی ایک نئی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔