جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ جنوبی کوریا میں ملاقات کے لیے آمنے سامنے آئے، تو دنیا کی نظریں اس بات پر مرکوز تھیں کہ آیا یہ دو بڑی معیشتیں بالآخر تجارتی اور تکنیکی تصادم کو کم کر سکیں گی یا یہ اجلاس عالمی ٹیکنالوجی اور تجارتی سرد جنگ کے ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہوگا۔
یہ اعلیٰ سطحی ملاقات بندرگاہی شہر بوسان میں جمعرات کے روز طے تھی، جو 2019 کے بعد دونوں رہنماؤں کی پہلی آمنے سامنے ملاقات تھی۔ ایجنڈا غیر معمولی طور پر وسیع تھا، جس میں تجارتی محصولات، نایاب معدنیات کی برآمدات، مصنوعی ذہانت، فینٹانائل منشیات کی اسمگلنگ، اور یوکرین و تائیوان سے متعلق جغرافیائی تنازعات شامل تھے۔
اگرچہ دونوں ممالک نے “مسائل کے حل” کی بات کی، مگر ماہرین کے مطابق یہ رقابت اب ڈھانچہ جاتی نوعیت اختیار کر چکی ہے، جو محض معیشت نہیں بلکہ طاقت، ٹیکنالوجی اور عالمی نظام کے متصادم نظریات پر مبنی ہے۔
محصولات اور ٹیکنالوجی کی جنگ
امریکہ اور چین کے تعلقات کئی برسوں سے زوال کا شکار ہیں۔ صدر ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد واشنگٹن نے ایک بار پھر سخت تجارتی مؤقف اپنایا اور اپنی پہلی مدت میں شروع ہونے والی محصولات کی جنگ کو دوبارہ زندہ کر دیا۔
رواں سال دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی مصنوعات پر سو فیصد سے زائد محصولات عائد کیے۔ امریکہ نے چین پر غیر منصفانہ تجارتی رویوں اور فینٹانائل کی برآمدات روکنے میں ناکامی کا الزام لگایا، جبکہ بیجنگ نے بھی جوابی محصولات اور 12 نایاب دھاتوں کی برآمد پر پابندی عائد کر دی۔ یہ دھاتیں دفاعی صنعت، برقی گاڑیوں اور مصنوعی ذہانت کے لیے ناگزیر ہیں۔
واشنگٹن نے قومی سلامتی کے خدشات کی بنیاد پر چین کو سیمی کنڈکٹرز کی برآمد پر بھی پابندیاں عائد کر دیں۔ بیجنگ نے اسے “ٹیکنالوجی کے محاصرے” کی کوشش قرار دیا، جس سے اعتماد کی فضا مزید مجروح ہوئی۔
بوسان اجلاس کی اہمیت
یہ ملاقات کئی ماہ کی خفیہ سفارتی کوششوں اور ناکام مذاکرات کے بعد عمل میں آئی۔ ٹرمپ نے اسے “مسائل حل کرنے والا عظیم اجلاس” قرار دیا، جبکہ چین کے وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی کہ دونوں رہنما “دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور” پر تبادلہ خیال کریں گے۔ تاہم ماہرین کے مطابق کسی بڑی پیشرفت کے امکانات محدود ہیں کیونکہ یہ رقابت اب معاشی، تکنیکی اور جغرافیائی سطح پر گہری جڑیں پکڑ چکی ہے۔
بنیادی مسائل
مرکزی تنازعہ محصولات سے جڑا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان زرعی تجارت اور صنعتی اشیاء پر سخت پابندیاں برقرار ہیں۔ ماہرین اسے “معاشی طاقت کے ہتھیار” کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کے ذریعے واشنگٹن چین پر پالیسی تبدیلی کا دباؤ ڈال رہا ہے، جبکہ بیجنگ اس کے مقابلے میں اپنی مزاحمتی قوت دکھا رہا ہے۔
فینٹانائل بحران بھی ایک کلیدی نکتہ ہے۔ امریکہ نے الزام لگایا ہے کہ چین مصنوعی منشیات کی تیاری میں استعمال ہونے والے کیمیکلز کی برآمد روکنے میں ناکام رہا ہے۔ چین کی جانب سے ممکنہ طور پر اس پر سخت کنٹرول کا عندیہ دیا گیا ہے تاکہ مذاکرات میں کچھ لچک دکھائی جا سکے۔
نایاب معدنیات اور ٹیکنالوجی
چین کی جانب سے نایاب معدنیات کی برآمد پر پابندی نے مغربی ممالک میں تشویش پیدا کر دی ہے، کیونکہ یہ عناصر دفاعی اور توانائی کی صنعت کے لیے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ امریکہ اب جاپان، ملائیشیا اور کمبوڈیا جیسے ممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کر رہا ہے تاکہ چین پر انحصار کم کیا جا سکے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی کشیدگی برقرار ہے۔ امریکہ نے چینی کمپنیوں پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں اور کے امریکی اثاثوں کو امریکی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔ بیجنگ نے اس اقدام کو “معاشی زبردستی” قرار دیا۔
یوکرین اور تائیوان پر اختلاف
یوکرین کی جنگ اور تائیوان کا مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان سب سے حساس موضوعات ہیں۔ ٹرمپ چین سے امید رکھتے ہیں کہ وہ روس پر دباؤ ڈالے، مگر بیجنگ ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات کو کمزور نہیں کرنا چاہتا۔ تائیوان کے معاملے پر چین کی پوزیشن واضح ہے کہ وہ “علیحدگی پسندی” برداشت نہیں کرے گا، جبکہ واشنگٹن تائیوان کو دفاعی ہتھیار فراہم کر کے طاقت کا توازن برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
طاقت کس کے پاس ہے؟
ماہرین کے مطابق امریکہ کے پاس اتحادیوں کا مضبوط نیٹ ورک ہے، جبکہ چین کے پاس صنعتی طاقت اور معاشی استقامت۔ امریکہ اپنے اتحادوں کے ذریعے دباؤ بڑھا سکتا ہے، مگر چین طویل المدتی مزاحمت کے ذریعے اس دباؤ کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ٹرمپ اور شی جن پنگ کی ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ اقتصادی باہمی انحصار اب امن کی ضمانت نہیں رہا۔ یہ ایک نئے دور کی نشاندہی ہے جہاں تجارت، ٹیکنالوجی اور ڈیٹا طاقت کے ہتھیار بن چکے ہیں۔ بوسان کا یہ اجلاس دراصل اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ہم “عالمگیریت” سے نکل کر “جغرافیائی معیشت” کی جنگ کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔
دیکھیں: اگر اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کو ضم کرتا ہے تو اسے امریکا کی حمایت سے محروم ہونا پڑے گا، امریکی صدر