آزاد کشمیر آج کل سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے جہاں پیپلز پارٹی کی اکثریت کے باوجود وزیرِ اعظم کے انتخاب کا عمل تاخیر کا شکار ہورہا ہے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی جانب سے متبادل وزیرِ اعظم کی نامزدگی میں تاخیر کے باعث تحریک عدمِ اعتماد کا عمل ابھی تک شروع نہیں ہو سکا۔ پی پی کی مرکزی قیادت کی جانب سے ہدایات کے انتظار میں سیاسی عمل تعطل کا شکار ہے۔
ذرائع کے مطابق تحریک عدمِ اعتماد کا فیصلہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی وطن واپسی پر موقوف ہے۔ تاہم جماعت کے ذمہ داران کی مختلف آرا نے سیاسی صورت حال کو مزید الجھا دیا ہے جہاں کئی اراکین موجودہ سیاسی ماحول میں حکومتی تبدیلی کے فائدے پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ نون کی جانب سے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے نے سیاسی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنادیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر انتخابات جلد کرائے گئے تو پیپلز پارٹی کو حکومتی تبدیلی سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہو پائے گا۔
آزاد کشمیر اسمبلی کی مدت جولائی 2026 میں اختتام پذیر ہو رہی ہے۔ تاہم انتخابات سے دو ماہ قبل ہی ترقیاتی کاموں اور سرکاری بھرتیوں پر پابندی عائد ہو جائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مارچ میں انتخابات کے انعقاد پر زور دیے جانے کی صورت میں، ممکنہ طور پر جنوری میں تشکیل پانے والی نئی حکومت انتظامی اختیارات سے محروم رہ سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یپلز پارٹی اسمبلی کی مکمل مدت تک حکومت برقرار رکھنے کی حامی ہے تاکہ وہ اپنے سیاسی اہداف حاصل کر سکے، جبکہ مسلم لیگ نون قبل از وقت انتخابات کی حامی ہے۔ یہی بنیادی اختلاف اس وقت سیاسی بحران کی وجہ بنا ہوا ہے۔