پاکستان میں آئینی ترامیم ہمیشہ بحث و تنازع کا محور رہی ہیں۔ ستائیسویں آئینی ترمیم کے بعد وفاقی اور صوبائی سطح پر عدلیہ کے ڈھانچے میں تبدیلیاں، مقامی حکومتوں کے اختیارات، اور ججوں کی تقرری و تبادلے کے نظام نے ایک بار پھر ملک کی سیاسی و قانونی سوچ کو متحرک کر دیا ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں آیا اور سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر دیے گئے۔ عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے حوالے سے یہ اقدامات مثبت بھی لگ سکتے ہیں مگر ان میں کئی پیچیدگیاں چھپی ہوئی ہیں۔
ستائیسویں ترمیم کے دوران دیکھا گیا کہ مقامی حکومتوں کی مالی خودمختاری اور پانچ سالہ انتخابی نظام میں خلل آیا، جس سے عوام کو اپنے مقامی مسائل پر اثرانداز ہونے کا حق محدود ہوا۔ ججز کے تبادلے اور ان کے ریٹائرمنٹ کے اختیارات میں تبدیلی نے عدلیہ میں سیاسی دباؤ کے امکانات بڑھا دیے۔ قانونی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومتیں ان نئے اختیارات کا استعمال کر کے اپنے مخالف ججز کو ہٹا سکتی ہیں، جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔
27ویں آئینی ترمیم نے یہ صورتحال مزید واضح کر دی ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کے بعد سپریم کورٹ کے اختیارات محدود ہو گئے ہیں، اور تمام آئینی معاملات اب نئی عدالت کے دائرہ اختیار میں آ جائیں گے۔ ہائی کورٹس کے ججز کے تبادلے اور ریٹائرمنٹ کی شرط نے عدلیہ کے اندر دباؤ کے امکانات کو بڑھا دیا ہے، جبکہ آرٹیکل 243 میں ترمیم سے فوجی ڈھانچے میں بھی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں، جیسے چیئرمین جوائنٹ چیفس کے عہدے کا خاتمہ اور چیف آف ڈیفنس فورسز کا قیام۔
لیکن آئین کی ترمیمات کی بحث کے بیچ، عوامی اور شرعی نقطہ نظر بھی سامنے آتا ہے:
آئین پاکستان کہ جس کی بنیاد ہی اسلام ہے کہ اس میں قرآن سنت کے بر خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ تو اس نظام میں صدر، وزیراعظم یا کوئی بھی حکومتی عہدیدار عدالت سے استثنا حاصل نہیں کرسکتے، اور اگر کرے تو غیر شرعی ہوگا۔ کئی مثالیں تو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کی موجود ہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے خود کو احتساب کیلئے، فیصلے کیلئے پیش کردیا کرتے تھے۔
سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ اس آئینی ترمیم میں عوام کیلئے کیا ہے؟ کہ اس ترمیم سے عام شہری کی زندگی میں کوئی بہتری آئے گی؟ یا صرف چند مقتدر حلقے مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ عوام کی ضرورت تو روزگار، بجلی، پانی، صحت اور مستحکم پاکستان ہے مگر چھبیسویں اور ستائیسویں آئینی ترمیم میں عوام کیلئے کچھ نہیں ہے۔ وہ ترمیم جس میں عوام کیلئے کچھ نہیں ہے وہ عوام دشمن تو ہوسکتی ہے، عوام دوست نہیں۔ اس لیے اب عوام کو جاننا چاہیے کہ کون انکے ساتھ مخلص ہے۔
اس ترمیم کے مخالفت میں کوئی ایک ووٹ بھی کاسٹ نہیں ہوا، اس ترمیم کیلئے تو کئی روز تک بحث و مباحثے ہونے چاہیں تھے۔ اور اسی طرح چھبیسویں ترمیم کی منظوری کے وقت بھی رات کی تاریکیوں میں کئی ملاقاتیں ہوئیں، مگر ایوان میں اسکو زیر بحث نہ لایا گیا اور خاموشی سے ان ترامیم کو منظور کیا گیا۔ واک آؤٹ کردینا، ووٹ کاسٹ نہ کرنا بھی خاموش حمایت ہے، اگر مخالفت کرنی ہی تھی تو عوام کو ساتھ ملایا جاتا بھرپور مزاحمت کی جاتی۔
لہذا، آئین میں ترامیم کے ساتھ ساتھ عدلیہ کی آزادی، سیاسی شفافیت، اور مقامی حکومتوں کی مؤثر کارکردگی پر بھی توجہ دینا ضروری ہے۔ یہ وہ بنیادی ستون ہیں جو ملک میں جمہوریت اور انصاف کی بنیاد مضبوط کرتے ہیں۔ آئینی ترمیمات کا اصل مقصد یہی ہونا چاہیے کہ قانون اور انصاف سب کے لیے یکساں اور شفاف ہوں، اور ہر شہری کو اپنی زندگی کے بنیادی حقوق اور مواقع میسر ہوں۔
دیکھیں: ستائیسویں آئینی ترمیم سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے منظور، مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا