نئی دہلی میں افغانستان کے وزیرِ صنعت و تجارت الحاج نورالدین عزیزی نے بھارتی حکام سے مذاکرات کے بعد دعویٰ کیا ہے کہ بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارتی تعلقات کو تقریباً ایک ارب ڈالر تک وسعت دینے کی خواہش موجود ہے اور اس سلسلے میں متعدد مسائل حل کر لیے گئے ہیں۔ تاہم سفارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی یہ سرگرم سفارت کاری جہاں ظاہری طور پر اقتصادی تعاون کا تاثر دیتی ہے، وہیں اس کے پس پشت “اسٹریٹجک مفادات اور علاقائی اثر و رسوخ” کا پہلو زیادہ نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
#WATCH | Delhi: Afghan Minister of Commerce and Industry, Alhaj Nooruddin Azizi, says, "… We want to expand our bilateral economic relationship between our two nations, a trade and business of approximately one billion dollars. Because the potential and resources exist in both… pic.twitter.com/rAqImrLyBz
— ANI (@ANI) November 24, 2025
نورالدین عزیزی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ اقتصادی تعلقات کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں۔ امکانات موجود ہیں، وسائل بھی موجود ہیں، اور نیت بھی موجود ہے۔ کچھ چھوٹے مسائل تھے، جن میں ویزا مسائل اور ایئر کوریڈور کے اخراجات شامل تھے۔ ہم یہاں انہی مسائل کے حل کے لیے آئے تھے اور یہ حل ہو چکے ہیں۔ اب تجارت، سرمایہ کاری اور ترانزٹ میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ ہم نے چابہار راستہ کھولنے پر بھی بات کی ہے، زمینی اور فضائی راہداریوں بھی زیرِ غور رہیں۔ دونوں ممالک سہولیات فراہم کرنے پر تیار ہیں۔ ہم اس دورے سے مطمئن ہیں۔
اگرچہ افغان وزیر کے بیان سے بظاہر پیش رفت کا تاثر دکھائی دیتا ہے مگر زمینی حقائق اس سے قدرے مختلف ہیں۔ بھارت گزشتہ کئی برسوں سے افغانستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کے لیے خطے میں عملی راستوں اور روابط کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ طالبان حکومت کے ساتھ براہ راست سیاسی شناخت کے بغیر بھارت کے لیے یہ اقتصادی بیانیہ زیادہ تر سفارتی نمائش کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔
دوسری جانب چابہار کا ذکر بھی اہم ہے مگر اس پورے منصوبے کا دارومدار ایران-بھارت تعلقات، امریکی پابندیوں، اور علاقائی سیکیورٹی پر ہے، جس کی وجہ سے اس راہداری کی عملی سطح پر قبولیت مسلسل غیر یقینی کا شکار رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے مطابق افغانستان کو بھارت کی طرف سے دیے جانے والے اقتصادی اشارے “شور شرابہ” زیادہ اور “عملی بنیاد” کم رکھتے ہیں۔
افغانستان نے حالیہ مہینوں میں بھارتی سرمایہ کاروں کو ٹیکس میں چھوٹ اور مفت زمین کی پیشکش بھی کی ہے لیکن بھارت کی جانب سے اس پیشکش کا کوئی بڑا عملی جواب سامنے نہیں آیا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت زیادہ تر اس اقتصادی بات چیت کو خطے میں اپنی موجودگی کے “علامتی اظہار” کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جبکہ حقیقی سرمایہ کاری اور تجارتی راہداریوں کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔
نورالدین عزیزی کے حالیہ دورے نے اگرچہ سفارتی سطح پر گرمجوشی پیدا کی ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا بھارت اس اقتصادی تعاون کو سنجیدگی سے عملی شکل دینے کے لیے تیار بھی ہے، یا پھر یہ پورا سلسلہ محض سفارتی منظرنامہ مستحکم رکھنے کی ایک حکمتِ عملی ہے؟
دیکھیں: افغان رہنما حبیب حکمتیار نے افغان پالیسیوں کو قیامِ امن کے لیے خطرناک قرار دے دیا