بلوچستان اس وقت شدید خشک سالی اور پانی کے بحران کی لپیٹ میں ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی رپورٹ کے مطابق صوبے میں زیرِ کاشت رقبہ کم ہوکر محض 7.2 فیصد رہ گیا ہے۔ زرعی ماہرین نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر ہنگامی بنیادوں مؤثر آبی انتظامی اقدامات نہ کیے گئے تو غذائی قلت اور وسیع پیمانے پر نقل مکانی جیسے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
متاثرہ علاقوں کی صورتحال
رپورٹ کے مطابق ہنہ جیسے علاقے جو کبھی سیب کے باغات کے حوالے سے مشہور تھے لیکن اب یہ علاقہ پانی کی شدید کمی کا شکار ہیں۔ بارز اور پانی کی کمی کے باعث باغات سوکھ رہے ہیں جس سے کسانوں کی روزی روٹی بھی شدید خطرے میں ہے۔ مقامی کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ پانی کی عدم دستیابی نے نہ صرف فصلوں کو تباہ کیا ہے بلکہ ان کی روزی روٹی کو بھی شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔
بحران کی وجوہات
ماہرین کے مطابق بلوچستان کے بحران کی بنیادی وجوہات میں بارشوں میں مسلسل کمی، اور زیرِ زمین پانی کی سطح میں تیزی سے ہونے والی گراوٹ شامل ہیں۔ رپورٹس کے مطابق صوبے میں زیرِ زمین پانی کی سطح ہر سال 3 سے 4 فٹ تک نیچے جا رہی ہے، جس کے باعث دیہی علاقوں کی تقریباً 75 فیصد آبادی براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔
ماہرین کی رائے
زرعی و آبی امور کے ماہرین کا مؤقف ہے کہ ڈیموں کی تعمیر، پانی کے جدید ذخیرہ کاری طریقوں کو اپنانا اور آبی وسائل کے موثر انتظام کے لیے جامع اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر فوری اور ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو نہ صرف صوبے کی زراعت تباہ ہو جائے گی بلکہ ملکی خوراک کی سلامتی بھی شدید خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
دیکھیں: بلوچستان میں ایک ہفتے کے دوران ایک ارب کا اسمگل شدہ مال ضبط کر لیا گیا