طالبان قیادت میں اندرونی اختلافات ایک بار پھر کھل کر سامنے آ گئے ہیں، جہاں ایک جانب سکیورٹی اور انٹیلی جنس حلقے طاقت اور جوابی کارروائی کی دھمکیاں دے رہے ہیں، وہیں دوسری طرف اعلیٰ مذہبی قیادت تحمل، ضبط اور علاقائی عدم مداخلت پر زور دے رہی ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ متضاد پیغامات طالبان کے اقتدار کے اندر ایک واضح تقسیم کی نشاندہی کرتے ہیں، جسے عموماً قندھار میں موجود مذہبی قیادت اور کابل میں سرگرم طاقتور سکیورٹی و انٹیلی جنس نیٹ ورکس کے درمیان خلیج سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
اس تقسیم کی تازہ مثال طالبان کی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کے ڈپٹی ڈائریکٹر تاجمیر جواد کا بیان ہے، جنہوں نے ایک مدرسے کی تقریبِ تقسیم اسناد سے خطاب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر افغانستان پر کوئی “مسلط شدہ جنگ” تھوپی گئی تو اس کا جواب فیصلہ کن طاقت سے دیا جائے گا۔ جواد کے اس بیان کو طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے حالیہ مؤقف سے ہم آہنگ سمجھا جا رہا ہے، جنہوں نے پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے سرحد پار سکیورٹی خدشات کو مسترد کرتے ہوئے طالبان کی مکمل خودمختاری پر زور دیا تھا۔
تاہم، یہ سخت لہجہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چند روز قبل کابل میں طالبان کے اعلیٰ مذہبی علما نے امیرِ طالبان ہیبت اللہ اخوندزادہ کی منظوری سے، ایک مذہبی فتویٰ جاری کیا تھا جس میں واضح طور پر افغانوں کو ہدایت کی گئی کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ اس فتویٰ میں تحمل، ذمہ داری اور علاقائی امن پر زور دیا گیا تھا۔
سکیورٹی قیادت اور مذہبی اتھارٹی کے بیانیے میں یہ واضح تضاد اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طالبان کے اندر پالیسی سازی میں ہم آہنگی کا فقدان بڑھ رہا ہے۔ جہاں مذہبی قیادت علاقائی عدم مداخلت اور ضبط نفس کی بات کر رہی ہے، وہیں سکیورٹی اور انٹیلی جنس حلقے جہادی دور کی زبان استعمال کرتے ہوئے طاقت کے استعمال کا عندیہ دے رہے ہیں، جو اندرونی اختلافات کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اختلاف محض الفاظ تک محدود نہیں بلکہ ایک گہرے ساختی بحران کی علامت ہے، جو طالبان کی کمانڈ اور کنٹرول کی یکجہتی پر سوالات اٹھاتا ہے۔ حالیہ بیانات کا تسلسل، خصوصاً حقانی نیٹ ورک سے منسلک سکیورٹی دھڑے کی جانب سے بیرونی خطرات کو اجاگر کرنا اور اب جی ڈٰی آئی کی جانب سے کھلی طاقت کی دھمکی، اس کوشش کی عکاسی کرتا ہے کہ طاقت پر مبنی بیانیے کو غالب کیا جائے۔
افغان تاریخ کے تناظر میں، مذہبی قیادت اور مسلح انٹیلی جنس نیٹ ورکس کے درمیان عوامی سطح پر اختلافات ماضی میں شدید اندرونی ٹکراؤ کا پیش خیمہ رہے ہیں، جیسا کہ 1990 کی دہائی میں مجاہدین کی باہمی تقسیم کی مثال موجود ہے۔ مبصرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر طالبان قیادت کے اندر یہ تضاد برقرار رہا تو یہ نہ صرف داخلی استحکام بلکہ علاقائی امن کے لیے بھی سنگین نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
دیکھیں: افغانستان بحران کے دہانے پر، خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق پر عالمی تشویش میں اضافہ