امریکی جریدے دی نیشنل انٹرسٹ نے افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ کی حکمتِ عملی کو القاعدہ اور داعش جیسی عالمی دہشت گرد تنظیموں کے مترادف قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ طالبان حکومت عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔
رپورٹ میں اقوام متحدہ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ افغان طالبان کے 20 سے زائد دہشت گرد گروہوں سے روابط ہیں جن میں ٹی ٹی پی، القاعدہ، داعش خراسان اور القاعدہ جیسی عالمی دہشت گرد تنظیمیں سرفہرست ہیں۔ امریکی جریدے نے اس بات کو واضح کیا کہ افغانستان میں ایسی نسل تیار ہو رہی ہے جو عالمی جہاد کو ایک مذہبی فریضہ سمجھتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے زیرِ انتظام مدارس میں 2021 کے بعد تعلیمی نصاب کو عالمی جہادی نظریے کی تربیت اور فروغ کے لیے یکسر تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب افغانستان میں تعلیم کا محور نظریاتی ہم آہنگی اور شدت پسندی کو فروغ دینا بن گیا ہے۔
جریدے کے مطابق افغان طالبان کے نظریات نہ تو افغان روایات کی عکاسی کرتا ہے اور نہ ہی دینِ اسلام کے بلکہ یہ ایک ظالمانہ وآمرانہ نظریہ ہے جسکو نوجوان نسل میں پھیلایا جارہا ہے۔ طالبان قیادت نے واضح کیا ہے کہ لڑکیوں کے اسکول صرف اسی صورت کھولیں گے جب ان کا نصاب مکمل طور پر نظریاتی پیمانے پر پورا اترے۔
تحقیقات کے مطابق ملا ہیبت اللہ اخوندزادہ ایک عالمی جہادی کے حامیین میں سے ہیں۔ ان کی سوچ مدارس کے ذریعے عوام کی ذہنی تشکیلِ نو کرکے اس نظریے کو عالمی سطح پر پھیلانا ہے۔
دی نیشنل انٹرسٹ کے مطابق چار کروڑ آبادی پر مشتمل افغانستان میں 23 ہزار سے زائد مدارس موجود ہیں، جو تعلیم کے نام پر نوجوان نسل کی منظّم طور پر نظریاتی تربیت وعسکری تربیت کر رہے ہیں۔ مذکورہ صورتِ حال مستقبل میں نہ صرف جنوبی و وسطی ایشیا میں عدمِ استحکام بلکہ عالمی سلامتی کے لیے بھی شدید خطرات پیدا کر سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کا نظریاتی تربیت کا یہ منظم عمل افغانستان، ہمسایہ ممالک اور پوری دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے۔