افغانستان میں دریائے کنڑ (کنار) پر بڑے پیمانے پر ڈیموں کی تعمیر کے منصوبوں نے ایک بار پھر افغانستان–پاکستان آبی تعلقات کو حساس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ افغانستان کی وزارتِ توانائی و پانی نے واضح کیا ہے کہ کنڑ دریا پر مجوزہ ایک بڑے پن بجلی منصوبے سے 1500 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی جبکہ طویل المدتی منصوبہ بندی کے تحت مجموعی طور پر 3651 میگاواٹ بجلی حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے۔
افغان قائم مقام وزیرِ توانائی، عبداللطیف منصور کے مطابق، گزشتہ برس کے دوران کمال خان ڈیم (نیمروز)، شاہ و عروس ڈیم (کابل)، پشدان ڈیم (ہرات) اور توری ڈیم (زابل) جیسے منصوبے مکمل یا فعال کیے جا چکے ہیں، جبکہ آئندہ پانچ برسوں میں 59 بڑے اور درمیانے درجے کے ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔ طویل المدتی وژن کے مطابق ملک بھر میں 184 ڈیمز تعمیر کیے جائیں گے، جن کی مجموعی لاگت کا تخمینہ 13.5 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔
طالبان حکام کا مؤقف ہے کہ افغانستان کو ایران کے ساتھ ہلمند معاہدے کے سوا کسی ہمسایہ ملک کے ساتھ باضابطہ آبی معاہدہ حاصل نہیں، اور ڈیموں کی تعمیر ایک خودمختار ریاست کا حق ہے۔ حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان منصوبوں سے پاکستان سمیت کسی بھی زیریں ملک کو پانی کی قلت کا سامنا نہیں ہوگا۔
تاہم ماہرین کے مطابق کنڑ–کابل دریا ایک سرحد پار آبی نظام ہے جو براہِ راست پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں داخل ہوتا ہے، جہاں لاکھوں افراد زراعت، پینے کے پانی اور پن بجلی کے لیے اس پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان کی تشویش افغان ترقی کے حق پر نہیں، بلکہ شفافیت، تکنیکی معلومات کے تبادلے اور مشترکہ آبی انتظام کے فقدان پر مرکوز ہے، جو بین الاقوامی آبی قوانین کے تحت زیریں ممالک کے حقوق کے تحفظ کے لیے ناگزیر سمجھے جاتے ہیں۔
اکتوبر میں سرحدی کشیدگی کے بعد پاکستان–افغانستان کے درمیان سفارتی روابط محدود ہو چکے ہیں، جس کے باعث مشترکہ آبی مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یکطرفہ طور پر بڑے ڈیموں کی تعمیر پانی کو ترقی کے بجائے ایک اسٹریٹجک دباؤ کے آلے میں بدل سکتی ہے، جو پہلے سے نازک علاقائی ماحول میں مزید تناؤ پیدا کرے گی۔
پاکستان کا مؤقف برقرار ہے کہ ترقی سب کا حق ہے، مگر مشترکہ دریاؤں کے لیے مشترکہ ذمہ داری اور باہمی فریم ورک ناگزیر ہے۔ ماہرین کے مطابق پائیدار استحکام کا راستہ تیز رفتار تعمیرات نہیں بلکہ بات چیت، اعتماد سازی اور مشترکہ دریا جاتی نظم و نسق سے ہو کر گزرتا ہے۔