آغا خان یونیورسٹی اور خیبر میڈیکل کالج سے تعلق رکھنے والے دو درجن سے زائد محققین کو اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی دنیا کے سرفہرست 2 فیصد سائنسدانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

December 18, 2025

یہ لمحہ ڈاکٹر نصرت پروین کے لیے غیر متوقع اور ہتک آمیز تھا۔ اسٹیج پر موجود دو افراد، جن میں ریاست کے وزیرِ داخلہ سمرت چودھری بھی شامل تھے، نے رسمی انداز میں مداخلت کی کوشش کی، جبکہ دیگر افراد اس واقعے کو ایک غیر سنجیدہ مذاق سمجھتے ہوئے ہنستے رہے، جس نے صورتحال کی سنگینی کو مزید اجاگر کیا۔

December 18, 2025

افغآن طالبان کی تہران اجلاس میں غیر موجودگی کے چند دن بعد ایران کے سینئر سفارتکار نے افغان وزیرِ خارجہ امیر متقی کو اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کیا

December 18, 2025

ترجمان وزارتِ خارجہ نے واضح طور پر کہا کہ چیف آف ڈیفنس فورس کے کسی امریکی دورے کا کوئی شیڈول طے نہیں اور اگر مستقبل میں ایسا کوئی دورہ طے پایا تو اس کا باضابطہ اعلان متعلقہ فورمز پر کیا جائے گا۔ ترجمان کے مطابق میڈیا رپورٹس پر مبنی قیاس آرائیاں حقائق کے منافی ہیں۔

December 18, 2025

لیون اب آسٹریلیا کے دوسرے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے ٹیسٹ باؤلر بن گئے ہیں اور مجموعی طور پر ٹیسٹ کرکٹ میں چھٹے نمبر پر ہیں

December 18, 2025

فورم کے اختتام پر ڈاکٹر روکسانا زیگن نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ اجلاس روس-پاکستان تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا اور اس کے نتائج پالیسی سازوں کو دوطرفہ شراکت داری کو عملی سطح پر نافذ کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔

December 18, 2025

ماسکو میں روس-پاکستان یوریشین فورم کا انعقاد، باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا فیصلہ

فورم کے اختتام پر ڈاکٹر روکسانا زیگن نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ اجلاس روس-پاکستان تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا اور اس کے نتائج پالیسی سازوں کو دوطرفہ شراکت داری کو عملی سطح پر نافذ کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔
ماسکو میں روس-پاکستان یوریشین فورم کا انعقاد، باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا فیصلہ

سینیٹر مشاہد حسین نے مغرب کے اسٹریٹجک اور معاشی زوال اور یوریشیا کی قیادت میں گلوبل ساؤتھ کے ابھار کو ناقابلِ واپسی حقیقت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جیسے کثیرالجہتی فورمز کا ہے، نہ کہ نیٹو جیسے ’’فرسودہ اتحادوں‘‘ کا، جو ان کے بقول یوکرین میں طویل تنازع کے خواہاں ہیں۔

December 18, 2025

ماسکو میں بدھ کے روز منعقد ہونے والا روس-پاکستان یوریشین فورم دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم سنگِ میل ثابت ہوا، جہاں دوطرفہ تعاون کو نئی جہت دینے کے لیے ایک عملی اور ٹھوس روڈ میپ کا اعلان کیا گیا۔ فورم کے اختتام پر منتظمین نے میڈیا، تعلیم، معیشت اور انسدادِ دہشت گردی کے شعبوں میں اسٹریٹجک ڈائیلاگ اور مشترکہ ورکنگ گروپس کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا۔

فورم کی شریک منتظم اور روسی اسکالر ڈاکٹر روکسانا زیگن نے کہا کہ اس اجلاس کا بنیادی حاصل آئندہ ایک سال کے لیے ایک قابلِ عمل حکمتِ عملی کی تیاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ روس-پاکستان اسٹریٹجک گروپ قائم کیا جا رہا ہے، جبکہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مستقل اسٹریٹجک ڈائیلاگ کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر زیگن کے مطابق، فورم نے مستقبل کے تعاون کے لیے ایک ایسا فریم ورک فراہم کر دیا ہے جو باہمی طور پر مربوط ہوگا اور ’’نئے اقدار، نئی سمتوں اور نئے اشتراکی ماڈلز‘‘ کی بنیاد پر تعلقات کو آگے بڑھائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عمل کا مقصد شراکت داری کو محض اعلانات تک محدود رکھنے کے بجائے عملی شکل دینا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تعاون کو چار بنیادی شعبوں پر مرکوز رکھا جائے گا۔
پہلا شعبہ اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان میڈیا تعاون کو فروغ دینا ہے تاکہ بیانیوں میں توازن اور عوامی سطح پر بہتر تفہیم پیدا کی جا سکے۔
دوسرا شعبہ تعلیمی و تعلیمی تبادلے ہیں، جن کا مقصد عوامی روابط کو مضبوط بنانا اور نئی نسل کو قریب لانا ہے۔
تیسرا شعبہ معاشی اور مالی تعاون سے متعلق ہے، جس کے لیے ایک خصوصی ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا ہے جو مخصوص دوطرفہ منصوبوں کو درپیش رکاوٹوں کے حل اور مراعاتی پیکجز پر کام کرے گا۔
چوتھا اہم شعبہ انسدادِ دہشت گردی ہے، جس کے تحت مشترکہ سفارشات اور تعاون کے طریقۂ کار تیار کیے جائیں گے۔ ڈاکٹر زیگن نے کہا کہ روس اور پاکستان کو اس میدان میں وسیع تجربہ حاصل ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ بہت کچھ شیئر کر سکتے ہیں۔

اس اسٹریٹجک اقدام کی قیادت پاکستانی جانب سے سینیٹر مشاہد حسین سید کریں گے، جنہیں ڈاکٹر زیگن نے ایک تجربہ کار سفارتکار اور دوطرفہ تعلقات پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت قرار دیا۔ روسی جانب سے اس عمل کی قیادت ڈاکٹر روکسانا زیگن خود سنبھالیں گی۔ انہوں نے ماسکو میں قائم یونیورسٹی آف ورلڈ سیولائزیشن کو بھی ایک کلیدی تعلیمی شراکت دار قرار دیا، جو پاکستانی اداروں کے لیے ایک اہم علمی مرکز اور رابطہ پوائنٹ کے طور پر کام کرے گی۔

فورم کے دوران علاقائی سلامتی پر ہونے والی بحث میں پاکستانی دفاعی تجزیہ کار ماریا سلطان نے افغانستان میں امریکی پالیسی پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جاری عدم استحکام کی بنیادی وجہ امریکہ کی 20 سالہ جنگ ہے، جس کے مقاصد وقت کے ساتھ بدلتے رہے—کبھی انسدادِ دہشت گردی اور کبھی ریاست سازی کے نام پر۔

ماریا سلطان نے بتایا کہ امریکی انخلا کے بعد 7 ارب ڈالر سے زائد کا فوجی ساز و سامان افغانستان میں چھوڑ دیا گیا، جو امریکی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور ایک غیر حقیقی افغان فوجی ڈھانچے کے باعث ممکن ہوا۔ ان کے مطابق اس صورتحال نے افغانستان کو انتہاپسند گروہوں کے لیے ایک مسلح پناہ گاہ بنا دیا ہے۔

انہوں نے اندازہ ظاہر کیا کہ اس وقت افغانستان میں 3 ہزار سے 5 ہزار داعش-خراسان کے جنگجو سرگرم ہیں، جبکہ القاعدہ بھی دوبارہ منظم ہو چکی ہے، جو براہِ راست پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کے لیے سکیورٹی خطرہ ہے۔ انہوں نے غیر قانونی سرحدی سرگرمیوں، ویزا تجارت اور غیر دستاویزی مہاجرین کے مسلسل بہاؤ کو بھی خطے کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا۔

فورم کے مرکزی موضوع کی بازگشت کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ دنیا اب واضح طور پر کثیر قطبی نظام کی جانب بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں امریکی جنگ پر ہونے والے بھاری اخراجات—جو ان کے مطابق 20 سال تک یومیہ 100 ملین ڈالر تھے—کو یک قطبی طاقت کی ناکامی کی علامت قرار دیا۔

سینیٹر مشاہد حسین نے مغرب کے اسٹریٹجک اور معاشی زوال اور یوریشیا کی قیادت میں گلوبل ساؤتھ کے ابھار کو ناقابلِ واپسی حقیقت قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل شنگھائی تعاون تنظیم اور برکس جیسے کثیرالجہتی فورمز کا ہے، نہ کہ نیٹو جیسے ’’فرسودہ اتحادوں‘‘ کا، جو ان کے بقول یوکرین میں طویل تنازع کے خواہاں ہیں۔

ادھر روسی اسکالر ڈاکٹر پروخور ٹی بن نے روس اور پاکستان کے درمیان ایک باقاعدہ یوریشین سیکیورٹی سسٹم کی تشکیل کی تجویز پیش کی، جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے تصورِ ’’گریٹر یوریشیا‘‘ سے ہم آہنگ ہے۔ ان کے مطابق یوریشیا کو ایک ایسے سیکیورٹی فریم ورک کی ضرورت ہے جو صرف عسکری دفاع تک محدود نہ ہو بلکہ معاشی ترقی اور زمینی روابط پر مبنی ہو۔

ڈاکٹر ٹی بن نے شمال-جنوب تجارتی راہداریوں کے قیام کو علاقائی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیا اور کہا کہ پاکستان کی بندرگاہوں کو استعمال کرتے ہوئے روس اور وسطی ایشیا کو بحرِ ہند سے جوڑنا ایک اسٹریٹجک ضرورت ہے۔ ان کے مطابق تجارتی راستوں میں تنوع خطے کو مقامی تنازعات کے اثرات سے محفوظ رکھتے ہوئے پائیدار استحکام کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔

فورم کے اختتام پر ڈاکٹر روکسانا زیگن نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ یہ اجلاس روس-پاکستان تعلقات میں ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا اور اس کے نتائج پالیسی سازوں کو دوطرفہ شراکت داری کو عملی سطح پر نافذ کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔

دیکھیں: پاکستان کے طلبا وطالبات عالمی سطح پر شاندار کامیابیاں سمیٹنے لگے

متعلقہ مضامین

آغا خان یونیورسٹی اور خیبر میڈیکل کالج سے تعلق رکھنے والے دو درجن سے زائد محققین کو اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی دنیا کے سرفہرست 2 فیصد سائنسدانوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

December 18, 2025

یہ لمحہ ڈاکٹر نصرت پروین کے لیے غیر متوقع اور ہتک آمیز تھا۔ اسٹیج پر موجود دو افراد، جن میں ریاست کے وزیرِ داخلہ سمرت چودھری بھی شامل تھے، نے رسمی انداز میں مداخلت کی کوشش کی، جبکہ دیگر افراد اس واقعے کو ایک غیر سنجیدہ مذاق سمجھتے ہوئے ہنستے رہے، جس نے صورتحال کی سنگینی کو مزید اجاگر کیا۔

December 18, 2025

افغآن طالبان کی تہران اجلاس میں غیر موجودگی کے چند دن بعد ایران کے سینئر سفارتکار نے افغان وزیرِ خارجہ امیر متقی کو اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ کیا

December 18, 2025

ترجمان وزارتِ خارجہ نے واضح طور پر کہا کہ چیف آف ڈیفنس فورس کے کسی امریکی دورے کا کوئی شیڈول طے نہیں اور اگر مستقبل میں ایسا کوئی دورہ طے پایا تو اس کا باضابطہ اعلان متعلقہ فورمز پر کیا جائے گا۔ ترجمان کے مطابق میڈیا رپورٹس پر مبنی قیاس آرائیاں حقائق کے منافی ہیں۔

December 18, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *