بین الاقوامی برادری ایک بار پھر افغانستان کو عالمی سطح پر سرگرم دہشت گرد نیٹ ورکس کے لیے ایک کلیدی آپریٹنگ ماحول قرار دے رہی ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے حالیہ تجزیے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ افغانستان سے جڑے شدت پسند نیٹ ورکس کی سرگرمیاں اب محض خطے تک محدود نہیں رہیں بلکہ افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا تک پھیل چکی ہیں، جو عالمی سلامتی کے لیے ایک مسلسل خطرہ بنتی جا رہی ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کے مطابق اسلامی ریاست (داعش) جیسے شدت پسند گروہ افغانستان سے منسلک ذیلی تنظیموں اور نیٹ ورکس کے ذریعے مختلف خطوں میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔ تجزیے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ ایسے محفوظ ٹھکانے، جہاں انتہا پسند عناصر کو تنظیم سازی، تربیت اور روابط قائم کرنے کا موقع ملتا ہے، سرحد پار تشدد اور عالمی سطح پر عدم استحکام کو فروغ دیتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف براعظموں میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا تسلسل اس بات کا ثبوت ہے کہ افغانستان سے جڑی عدم استحکام کی لہر اب جغرافیائی حدود سے باہر نکل چکی ہے۔ ان حملوں کے پیچھے کارفرما نیٹ ورکس نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی منظم انداز میں سرگرم ہیں، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ افغانستان سے جڑی دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے حالات میں عالمی برادری کے لیے یہ خطرہ نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ مختلف ممالک نے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کیے ہیں، تاہم افغانستان میں شدت پسندوں کے لیے دستیاب آپریٹنگ اسپیس بدستور عالمی سلامتی کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے۔
رپورٹ میں اس امر پر بھی زور دیا گیا ہے کہ افغانستان سے جڑی دہشت گردی کا مقابلہ صرف علاقائی سطح پر نہیں بلکہ عالمی سطح پر مربوط اور مسلسل حکمتِ عملی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ مبصرین کے مطابق جب تک ان نیٹ ورکس کے مالی، تنظیمی اور جغرافیائی ٹھکانوں کو مؤثر انداز میں نشانہ نہیں بنایا جاتا، تب تک دنیا کو افغانستان سے جڑے شدت پسند خطرات کا سامنا رہے گا۔
واشنگٹن پوسٹ کا یہ تجزیہ ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ افغانستان میں پیدا ہونے والی سلامتی کی صورتحال کے اثرات اب پوری دنیا میں محسوس کیے جا رہے ہیں، اور اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر سنجیدہ اور مشترکہ اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔
دیکھیں: افغان طالبان کی حکومت میں خوفزدہ شہری اور بڑھتے ہوئے جرائم