پاکستان کی طرح تاجکستان بھی افغان طالبان رجیم کی دہشت گردی کا شکار ہوگیا۔ طالبان رجیم کی سرپرستی میں ٹی ٹی ٹی کے دہشت گردوں نے افغان طالبان کی سرپرستی میں تاجکستان میں در اندازی کی جس کے نتیجے میں جھڑپ ہوئی اور دو تاجک اہلکار اور تین دہشت گرد ہلاک ہوگئے، تاجک صدر نے جوابی کارروائی کا اعلان کردیا ہے۔ افغان طالبان کی جانب سے تاجکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی طرز پر ٹی ٹی ٹی کے نام سے تنظیم کی سرپرستی 2021سے کی جارہی ہے، اور اب اس کے ساتھ ساتھ چینی علیحدگی پسند دہشت گرد اور القاعدہ کی اتحادی تنظیمیں ای ٹی آئی ایم اور ای ٹی ایل ایف بھی شامل ہوگئی ہیں۔طالبان رجیم دہشت گردی کو پالیسی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے پہلے ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا تھا، اب وہ ٹی ٹی ٹی کو تاجکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
افغانستان اور تاجکستان کی مشترکہ سرحد تقریباً 1,357 کلومیٹر طویل ہے، جو زیادہ تر دریائے آمو (پنج) اور پامیر دریاؤں کے ساتھ چلتی ہے۔ یہ سرحد تاریخی طور پر حساس رہی ہے، کیونکہ دونوں ممالک میں تاجک نسل کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں (افغانستان میں تاجک آبادی کا تناسب تقریباً 27% ہے)۔ 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی ہے، کیونکہ تاجکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور ان پر الزام لگایا کہ وہ دہشت گرد گروپوں کو پناہ دے رہے ہیں۔ تاجکستان پر الزام ہے کہ وہ اینٹی طالبان گروپوں (جیسے نیشنل ریزسٹنس فرنٹ) کو سپورٹ کرتا ہے، جبکہ طالبان تاجک دہشت گرد گروپ جماعت انصار اللہ جو ٹی ٹی ٹی کہلوانا پسند کرتی ہے کو صرف پناہ ہی نہیں دے رہا بلکہ ہر طرح سے سہولت کاری کر رہا ہے جس طرح کہ پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی سہولت کاری کی جا رہی ہے ۔
مبصرین کے مطابق طالبان نے دہشت گردوں کی سرپرستی کو ایک ریاستی پالییس کے طور پر اختیار کر رکھا ہے ۔ جس طرح سے پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کی دہشت گردی روکنے کے مطالبے کے جواب میں طالبان تجارتی رعائتوں اور دیگر سہولیات کا مطالبہ رکھتے ہیں ، اسی طرح سے تاجکستان کو بھی سرحدی تنازعات پر طالبان کا موقف تسلیم کرنے کے لئے ٹی ٹی ٹی کی دہشت گردی کو سپورٹ کیا جا رہا ہے ۔ یہ واضح ہے کہ طالبان نے پاکستان کو بلیک میل کرنے کی پالیسی کے ساتھ ساتھ تاجکستان کے خلاف بھی دہشت گردی کے ذریعے بلیک میل کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔ اس امرکے ثبوت موجود ہیں کہ جماعت انصار اللہ یعنی تحریک طالبان تاجکستان (ٹی ٹی ٹی) کو تاجکستان کے ساتھ ملحق صوبہ بدخشان کے سرحدی علاقوں’’ کوف آب، خواہان، میمئی، نوسے اور شیکے ‘‘ دہشت گردی کے مراکز قائم کرنے اور کارروائیوں کی اجازت دے دی گئی ہے۔ صوبہ تخار میں ہمارے ایک سوروس طالبان ذمہ دارنے تصدیق کی ہے کہ بدخشاں اور تخار دونوں جگہ تاجک دہشت گردوں کے کیمپ 2021 سے قائم ہیں ، اور انہیں راشن ،تریننگ سمیت تمام اخراجات طالبان کے عسکری بجٹ سے دئے جاتے ہیں اور یہ دہشت گرد افغان طالبان کا آفیشل سطح پر حصہ قرار دئے گئے ہیں ، سورس کے مطابق ان سرگرمیوں کا مقصد تاجکستان کو سبق سکھانا ہے۔ بعد ازاں دیگر افغان طالبان کے سرکاری ذرائع سے بھی اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ تاجک سرحد پر دہشت گردی کی سرگرمیاں باقاعدہ طالبان حکومت کی اجازت سے شروع کی گئی ہیں۔
مقامی سطح پر موجو سورسز کا دعویٰ ہے کہ تاجک بارڈر پر ٹی ٹی ٹی کے مراکز میں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بھی موجود ہیں اور انہیں اضلاع میں ٹی ٹی ٹی کے ساتھ ساتھ ای ٹی آئی ایم کے دہشت گردوں کو بھی افغان رجیم کی سرپرستی میں رکھا گیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر افغان طالبان پوری دنیا میں خود کو داعش مخالف قرار دیتے ہیں لیکن بدخشاں کے ان سرحدی اضلاع میں داعش کھلے بندوں موجود ہے اور اس کے مراکز کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی بلکہ انہیں سہولیتیں دی جا رہی ہیں۔ تاجک سرحد پر داعش گروپ ایک پرانے داعش دہشت گرد ڈاکٹر عبداللہ ازبکی کی قیادت میں متحرک ہے، جو داعش خراسان کی شوریٰ کا رکن داعش ازبکستان کا سابق امیر بھی ہے۔
تحریک طالبان تاجکستان (ٹی ٹی ٹی)، جسے جماعت انصار اللہ بھی کہا جاتا ہے، اس کا تعار ف یہ ہے کہ یہ ایک تاجک دہشت گرد گروپ ہے جو تاجکستان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا ہدف رکھتا ہے ۔ تنظیم کی بنیاد 2006 میں امرالدین طباروف المعروف ملا امرالدین نے رکھی۔ طباروف تاجکستان کی خانہ جنگی کے دوران متحدہ تاجک اپوزیشن کا راہنما بھی تھا ۔ 2010 میں تنظیم نے پہلی بار خود کو عوامی طور پر متعارف کروایا جب اس نے خجند شہر میں پولیس سٹیشن پر خودکش کار بم حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ طباروف 2016 میں ہلاک ہو گیا۔ اس وقت ٹی ٹی ٹی کی قیادت مہدی ارسلان (اصل نام محمد شریفوف) کر رہا ہے ، جو ایک تاجک شہری ہے اور 2015 سے طالبان میں شامل ہے۔ وہ ماضی میں القاعدہ کے ساتھ رہ چکا ہے ، اور اس کے کچھ ساتھی شام بھی گئے جہاں داعش کے ساتھ رابطوں میں آئے ، واپس افغانستان آکر یہ لوگ القاعدہ چھوڑ کر طالبان میں شامل ہوگئے ، طالبان قیادت کی گفتگو سے اندازہ یہ ہو رہا ہے کہ وسط ایشیا کے جو دہشت گرد القاعدہ یا طالبان کا حصہ رہے ہیں ، انہیں اس تنظیم کے تحت جمع کیا جارہا ہے ۔
طالبان نے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد شریفوف کو باقاعدہ جماعت انصار اللہ کو دوبارہ منظم کرنے کی ذمہ داری دی، 2023جون میں اسے تحریک طالبان تاجکستان ( ٹی ٹی ٹی ) کا نام دیا گیا ۔ تازہ اطلاعات کے مطابق مہدی ارسلان بدخشان کے صدر مقام فیض آباد کے قریب رہائش پذیر ہے، جبکہ اس کے جنگجو سرحدی علاقوں میں مراکز میں رہتے ہیں۔ طالبان ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی ٹی کا مقصد تاجکستان کو بلیک میل کر کے مذاکرات کی میز پر لانا ہے، کیونکہ تاجکستان این آر ایف (نیشنل ریزسٹنس فرنٹ) کو سپورٹ کرتا ہے، افغانستان کے چرائے ہوئے ہیلی کاپٹر واپس نہیں کرتا اور امریکہ کی جاسوسی میں مدد دیتا ہے۔
تنظیم طالبان اور القاعدہ سے باقاعدہ طور پر منسلک ہے ، لیکن اس کا دعویٰ ہے کہ یہ عالمی خلافت کے بجائے تاجکستان تک محدود قوم پرست جہادی گروپ ہے، لیکن اس کے ایرانی گروپ جیش العدل سے بھی رابطوں کے ثبوت موجو دہیں ۔ 2021 میں بر سر اقتدار آنے کے بعد طالبان نے اسے بدخشان صوبے کے کئی ضلعوں کی سرحدی سیکیورٹی کی ذمہ داری سونپی تھی۔ تاہم 2023-2024 تک رپورٹس کے مطابق طالبان نے انہیں سرحدی علاقوں سے ہٹا کر دیگر جگہوں پر منتقل کر دیا۔ اس کے ارکان کی تعداد، 2021 میں پانچ سو کے قریب تھی اب قریبا ً2000تک پہنچ چکی ہے ، جن میں اکثریت کا تعلق تاجکستان کے صوبوں سغد، ختلان اور رسٹ ویلی سے ہے ، جبکہ افغان شہری اور چینی ایگور بھی شامل ہیں ، اس دہشت گرد تنظیم میں افغان طالبان ا ور القاعدہ کی مدد سے افغانستان، وسطی ایشیا اور روس سے بھرتیاں کی جارہی ہیں، جبکہ ٹی ٹی پی سے بھی دہشت گرد اس کے ساتھ منسلک کئے گئے ہیں ۔کنفرم اطلاعات ہیں کہ طالبان نے ٹی ٹی ٹی کے 18 کمانڈروں کو افغان پاسپورٹ فراہم کیے اور انہیں ماہانہ تنخواہ بھی دی جا رہی ہے ۔
2025 میں طالبان کی پالیسی کے تحت تاجکستان مین در اندازی بڑھ گئی ہے۔ 2025 کے پہلے نصف میں 10 سے زائد واقعات ہوئے۔ جون 2025 کے بعد دیکھا جائے تو صرف دسمبر میں دراندازی کے تین واقعات ہو چکے ہیں ، جن میں تازہ ترین حملہ ایک روز قبل 24 دسمبر کو شمسیدین شاہین ضلع میں افغانستان سے دراندازی کی صورت کیا گیا ۔ یہ حملہ تحریک طالبان تاجکستان (ٹی ٹی ٹی) یا جماعت انصار اللہ کے ارکان سے منسوب کیا جا رہا ہے، جو افغانستان میں فعال ہے۔ تاجکستان کی اسٹیٹ کمیٹی برائے قومی سلامتی نے اسے مہینے کا تیسرا حملہ قرار دیا اور طالبان سے معافی مانگنے اور سرحدی سلامتی یقینی بنانے کا مطالبہ کیا۔
ان حملوں کے جواب میں تاجکستان نے سرحد پر نئی چوکیاں قائم کیں اور ایک ٹینک رجمنٹ تعینات کی۔ 24 دسمبر کو صدر امام علی رحمان نے ایک ٹینک ٹریننگ گراؤنڈ اور چار نئی فوجی چوکیوں کا افتتاح کیا۔ سرحدی علاقے ’’ حرب مایدان‘‘ کے علاقے میں ٹینک ٹریننگ گراؤنڈ کو جدید تعلیمی انفراسٹرکچر سے لیس کیا گیا ہے۔ سورسز کا دعویٰ ہے کہ تاجکستان افغان طالبان کی در اندازی کرنے والے دہشت گردوں کی سر پرستی سے نمٹنے کے لئے سر حد پر 80 نئی سرحدی چوکیاں تعمیر کر چکا ہے ، اب دسمبر میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد تاجکستان کی جانب سے روس سے بھی مدد مانگنے کی اطلاعات ہیں، جس کی تاجلک قیادت تردید کر رہی ہے ، کیونکہ وہ اسے منظر عام پر نہیں لانا چاہتے ۔
سورسز کے مطابق طالبان تاجکستان کے ساتھ بھی پاکستان والی واردات جاری رکھے ہوئے ہیں ، ایک جانب سرحدی تعاون کا وعدہ کیا جا رہ اہے تو دوسری جانب دہشت گردوں کی سرپرستی بھی جاری ہے ۔ تاجک صدر کے ترجمان نے کھل کر کہا ہے کہ طالبان اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سرحد پر کشیدگی جاری ہے، لیکن دونوں طرف سے مذاکرات بھی ہو رہے ہیں،جیسے تجارت، بجلی کی فراہمی وغیرہ۔ پاکستان کے بعد تاجکستان کے خلاف دہشت گردی کی سر پرستی ثابت کر رہی ہے کہ افغان رجیم وسطی ایشیا کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہاہے ۔
دیکھیں: افغانستان میں بلٹ پروف گاڑی کے بغیر نہیں گھوم سکتا؛ راشد خان کا اعتراف