اقوامِ متحدہ کی 80ویں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ترک صدر اردوان نے ایک ولولہ انگیز اور بامعنی خطاب کیا، جس نے عالمی برادری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ان کی تقریر کا سب سے مؤثر لمحہ وہ تھا جب انہوں نے غزہ کے معصوم بچوں کی خون آلود اور جسمانی اعضا سے محروم تصاویر دکھا کر عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا۔ تاہم ان کا خطاب صرف فلسطین تک محدود نہ رہا، بلکہ انہوں نے بھارت کے زیرِ تسلط کشمیری عوام کی جدوجہد اور مظلومیت کو بھی بھرپور انداز میں اجاگر کیا اور واضح کیا کہ اس مسئلے کا منصفانہ حل نہ صرف جنوبی ایشیاء بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ناگزیر ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ گزشتہ 23 ماہ سے ہر گھنٹے کے بعد ایک فلسطینی بچہ اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن کر زندگی سے محروم ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ہر بچہ ایک کہانی اور ایک کائنات ہے جو مسمار کر دی گئی۔
ایوان سے خطاب کے دوران صدر اردوان نے تین تصاویر دکھائیں جن میں زخمی اور معذور بچے، کھنڈر میں تبدیل محلے اور دربدر فلسطینی خاندان نمایاں تھے۔ ان مناظر نے ایوان کو لمحوں کے لیے ساکت کر دیا۔ اردوان نے الزام عائد کیا کہ اسرائیل صرف انسانوں کو ہی نہیں بلکہ درختوں، جانوروں اور زمین کو بھی نشانہ بنا رہا ہے، صدیوں پرانے زیتون کے باغ اجاڑ دیے گئے ہیں، پانی کو زہر آلود کر دیا گیا ہے اور زمین کو بنجر بنا دیا گیا ہے۔
اپنے خطاب میں ترک صدر نے واضح کیا کہ جنوبی ایشیا میں امن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان کے درمیان اپریل میں ہونے والی جنگ بندی کا خیرمقدم کیا لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ اگر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ کیا گیا تو خطہ مسلسل کشیدگی اور خطرات کی زد میں رہے گا۔
صدر اردوان نے کہا کہ کشمیر محض ایک سرحدی تنازع نہیں بلکہ کروڑوں انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق کا سوال ہے۔ ان کے مطابق جب تک کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت نہیں ملتا، خطے میں حقیقی امن قائم نہیں ہو سکتا۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ گزشتہ سال اپنی تقریر میں صدر اردوان نے کشمیر کا ذکر نہیں کیا تھا، تاہم اس مرتبہ انہوں نے اسے اپنی تقریر کا مرکزی نکتہ بنایا اور عالمی برادری کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ وہ مزید خاموش تماشائی نہ بنی رہے۔
دیکھیں: کینیڈا اور برطانیہ کے بعد فرانس نے بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا