افغان حکومت نے پاکستانی ادویات کو ناقص اور مضرصحت قرار دیتے ہوئے ادویات کی درآمدات پر پابندی عائد کر دی ہے۔ افغان تاجروں کو متبادل سپلائرز تلاش کرنے کی ہدایت جاری کردی۔ لیکن افغان طالبان ادویات کے ناقص اور مضر صحت قرار دینے پر کسی قسم کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکے۔ طالبان کا مذکورہ فیصلہ داخلی سیاسی دباؤ اور سرحدی راستوں پر کنٹرول کی حکمت عملی معلوم ہوتا ہے۔
ادویات پر عوامی اعتماد
دہائیوں سے افغان خواتین پاکستانی ادویات جیسے اینٹی بایوٹکس، انسولین، دل کی دوائیں اور جلدی امراض کے مرہم استعمال کرتی آئی ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے مطابق افغانستان کی 70 فیصد ادویات پاکستان سے آتی ہیں اور پابندی کے بعد ملک میں ادویات کی شدید کمی اور قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ افغان شہریوں کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کی جانب سے پابندی کے بعد جعلی اور غیر معیاری ادویات کا مارکیٹ میں اضافہ ہوا ہے جس سے عوام جڑی بوٹیوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔
عالمی رپورٹس اور زمینی حقائق
ڈی ڈبلیو کے مطابق پابندی کے بعد افغانستان میں ادویات کی شدید قلت اور قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جبکہ افغان شہریوں کا پاکستانی ادویات پر اعتماد اب بھی برقرار ہے۔ اسی طرح پرافٹ کا کہنا ہے کہ طالبان نے پاکستانی ادویات کی درآمد کو ناقص وغیر معیار قرار تو دیا ہے مگر کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے۔
افغانستان انٹرنیشنل کے مطابق طالبان وزارتِ صحت نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان میں کوئی کمی نہیں ہے مگر دوسری جانب زمینی حقائق قلت، بحران اور عوامی مشکلات کو واضح کرتے ہیں۔ نیز عوامی سطح پر قیمتوں میں اضافہ اور جعلی ادویات کی فروخت بھی بڑھ گئی ہے۔
مزید یہ کہ اقوامِ متحدہ کے مطابق افغانستان میں تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ افراد ادویات اور امداد کے منتظر ہیں جبکہ افغان سرزمین ادویات کی پیداوار میں محدود ہے، اس لیے پاکستان سے سپلائی بند ہونا عوامی مشکلات کو مزید بڑھا رہا ہے۔
پاکستان کے حق میں شواہد
دیکھا جائے تو پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے افغانستان کو معیاری ادویات فراہم کر رہا ہے جس کی تصدیق ڈی ڈبلیو نے کی ہے کہ پاکستان دہائیوں سے افغانستان کو معیاری اور سستی ادویات فراہم کرتا رہا ہے۔ اسی طرح پرافٹ کی رپورٹ میں کہیں بھی پاکستانی ادویات کے معیار پر کوئی سائنسی یا ریگولیٹری اعتراض نہیں ملتا۔
مزید یہ کہ ڈی ڈبلیو نے بتایا کہ پاکستان نے انسانی ہمدردی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے افغان سرحدات کھولنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستان عوامی مفاد کو مقدّم رکھتا ہے۔
افغان حکومت کا سیاسی دباؤ
پرافٹ کے مطابق پابندی کے الفاظ جیسے “غیرقانونی تجارت” اور “متبادل راستے” اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ مذکورہ فیصلہ بنیادی طور پر بارڈر مینجمنٹ اور داخلی سیاست سے منسلک ہے۔ اسی طرح افغانستان انٹرنیشنل نے بتایا کہ طالبان حکومت نے سپلائی کے دباؤ کو ختم کرنے بجائے اپنی روش کو برقرار رکھتے ہوئے کسی اور کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ عوامی مشکلات میں اضافہ اور ادویات تک رسائی محدود ہوگئی ہے۔
افغان حکومت کی پاکستانی ادویات پر پابندی ایک سیاسی فیصلے کے طور پر سامنے آئی ہے جو سیاست اور داخلی دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا ہے۔ عالمی تحقیقات، مارکیٹ میں قلت اور افغان عوام کے بیانات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پاکستانی ادویات پر اعتماد اب بھی برقرار ہے۔ موجودہ بحران سپلائی چین کے ٹوٹنے کی پیداوار ہے،نہ کہ معیار کی ناکامی۔ پاکستان تعاون اور انسانی امداد کے لیے تیار ہے، جبکہ افغان حکومت عوامی بھروسے کو سیاست کی بھینٹ چڑھا رہی ہے۔