ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اس وقت اینٹی بائیوٹکس، انسولین اور امراضِ قلب کی ادویات کی شدید قلّت ہے۔ ہرات سے ایک سماجی کارکن لینا حیدری کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ ایک ماہ سے بنیادی و ضروری ادویات تک بازار میں دستیاب نہیں جبکہ مارکیٹ میں جعلی ادویات فروخت کی جارہی ہیں۔
افغان شہریوں کے بیانات اور اور رپورٹس کے برعکس افغان طالبان حکومت نے ادویاتی قلت کی رپورٹس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان حکومت کا بھارتی کمپنیوں سے 100 ملین ڈالر مالیت کی ادویات کی سپلائی کا معاہدہ ہوچکا ہے اسی تناظر میں بھارت 73 ٹن طبی امداد بھی افغانستان بھیج چکا ہے مگر اس سب کے باوجود افغان اور ڈی ڈبلیو کی رپورٹس کے مطابق افغان شہریوں کو ادویاتی قلت کا سامنا ہے۔
ڈی ڈبلیو کے مطابق افغانستان میں مقامی سطح پر دوا سازی نہ ہونے کے برابر ہے، جو ملک کے طبی بحران کی بنیادی وجہ ہے۔ پاکستان سمیت خطے کے متعدد ممالک اس کمی کی نشاندہی کر چکے ہیں بالخصوص جب سے بیرونی امداد کی کمی کا سامنا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق اس وقت 2 کروڑ 30 لاکھ افغان شہری انسانی امداد پر انحصار کر رہے ہیں، جو مجموعی صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔
دیکھیں: افغانستان: بدلتے ہوئے حلیف اور علاقائی تنہائی کا خدشہ