اسلام آباد کی مذاکراتی حکمتِ عملی بالکل واضح اور یکساں رہی ہے: قبل ازیں دوحہ میں ہونے والی پہلی بات چیت (19 اکتوبر 2025) سے لیکر استنبول میں ہونے والے دوسرے اور تیسرے دور تک پاکستان نے ایک ہی مطالبہ دہرایا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے اڈے نہ بنانے دیا جائے۔ رپورٹ کے مطابق استنبول مذاکرات میں یہی موضوع زیرِ بحث رہا اور دونوں طرف کی درخواستیں ایک دوسرے کے لیے ناقابلِ قبول ثابت ہوئیں۔
اب آریانا نیوز دیگر افغان میڈیا چینلز نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردوں کو افغانستان منتقل کرنے یا طالبان سے فضائی حدود کے حوالے سے یقین دہانی مانگی۔ ان کے مطابق افغانستان کے پیش گیے گئے مطالبات پر پاکستان راضی نظر نہیں آتا۔ تاہم پاکستانی حکام کے مطابق ان کا بس ایک ہی مطالبہ ہے جس پر انہیں تحریری یقین دہانی چاہیے کہ پاکستان میں افغان سرزمین سے حملے نہیں ہوں گے۔
Sources in Turkey have told Ariana News that the Afghan delegation at the Istanbul talks shared its views with the mediators, but the Pakistani side raised certain demands that have no connection to Afghanistan. According to the sources, the Islamabad delegation asked Afghanistan… pic.twitter.com/KnhWG3fo15
— Ariana News (@ArianaNews_) November 7, 2025
ذرائع کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے پاکستان کے خلاف ایک منظم اور مربوط غلط معلوماتی مہم شروع کی گئی ہے، جس کے ذریعے ان کے ترجمان یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان، طالبان سے تحریکِ طالبان پاکستان کو افغانستان منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ درحقیقت یہ بیانیہ مکمل طور پر گمراہ کن ہے۔ مذاکرات کے آغاز سے اب تک اسلام آباد کا موقف ایک ہی رہا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ تاہم اس واضح مطالبے سے بچنے کے لیے طالبان قیادت مختلف پروپیگنڈا اور گریز کی حکمتِ عملیاں اختیار کر رہی ہے تاکہ بین الاقوامی سطح پر دباؤ کم کیا جا سکے۔
پاکستانی ذرائع کے مطابق، ٹی ٹی پی کے کیمپ پہلے ہی افغان علاقے میں قائم ہیں، جن کی تعداد کم از کم 58 بتائی جاتی ہے، جبکہ ان کی پوری قیادت کابل اور غزنی میں مقیم ہے۔ یہ گروہ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گرد گروہ (تشكیلیں) بھیجتا ہے، جو کارروائیوں کے بعد اپنے زخمیوں اور لاشوں کو واپس افغان حدود میں لے جاتے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان طالبان سے “منتقلی” کا مطالبہ کرے، جب کہ وہ عناصر پہلے ہی افغان زمین پر موجود ہیں۔ اسلام آباد کا اصل مطالبہ صرف اتنا ہے کہ طالبان تحریری طور پر اس بات کی ضمانت دیں کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو گی۔ کیا یہ مطالبہ واقعی ناممکن ہے؟
اسلام آباد کا موقف اور حفاظتی خدشات
پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے، خاص طور پر تنظیموں جیسے تحریکِ طالبانِ پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائیاں ملک کی داخلی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ اس تناظر میں قومی سلامتی کی بالادستی اور شہری تحفظ اولین ترجیح ہے، لہٰذا کابل سے مطالبہ رہا کہ وہ ان گروہوں کی افغان علاقے میں موجودگی اور کارروائیوں کو ختم کرائے۔
ٹی ٹی پی کا معاملہ
رپورٹس کے مطابق پاکستان نے پہلے ہی ٹی ٹی پی کو سرحد سے دور، غزنی جیسے علاقوں میں منتقل کرنے کی درخواست کی تھی، جب کہ کابل کی جانب سے اس پر مایوس کن جواب ملا۔ اسی بنیاد پر پاکستان نے استفسار کیا کہ اگر سابقہ مطالبے کا منفی رد پایا گیا تو اسی مطالبے کو کیوں دوبارہ دہرانا مناسب ہو گا؟ اس سوال نے مذاکراتی فضا میں کشیدگی میں اضافہ کیا۔
خطرے کی صورتِ حال اور ممکنہ عملدرآمد
اسلام آباد نے واضح کر دیا ہے کہ اگر طالبان/کابل انتظامیہ نے افغانستان سے پاکستان کے خلاف جاری حملوں اور ٹی ٹی پی کی سرحد پار مداخلت کو روکنے میں ناکامی دکھائی تو پاکستان اپنے دفاعی اقدامات کرنے سے باز نہیں رہے گا۔ یہ پیغام بین الاقوامی سفارتی چینلز اور مذاکراتی میز دونوں جگہ پہنچایا گیا ہے، جس کا مقصد ایک واضح انتباہ دینا اور مستقبل میں کسی بھی غیر متوقع کراس بارڈر آپریشن کی روک تھام کے لیے سیاسی و عسکری تیاریوں کو اجاگر کرنا ہے۔
نتائج اور علاقائی افق
استنبول دورِ مذاکرات نے یہ بات روشن کر دی ہے کہ اگرچہ مذاکرات جاری رہ سکتے ہیں، مگر ان کے کامیاب نتیجہ کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ افغان سرزمین کو دیگر ملکوں کے خلاف استعمال نہ ہونے دیا جائے۔ اس کے بغیر اعتماد سازی مشکل ہے اور باہمی روابط میں استحکام کا قیام ناممکن نظر آتا ہے۔ بین الاقوامی برادری کے تعاون اور موثر نگرانی کے بغیر اس نوعیت کے تنازعات کا حل مشکل رہے گا۔