امریکی کانگریس مین ٹِم برشیٹ نے افغان طالبان کو مالی معاونت روکنے کے لیے پیش کیے گئے بل کو سینیٹ میں رکنے پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔ ان کے مطابق سینیٹ اسٹافر، جنہیں وہ ‘‘ٹام ویسٹ’’ بتاتے ہیں اس قانون سازی کی راہ میں رکاوٹ ہیں،اور ان کے افغان طالبان سے مبینہ تعلقات سیکیورٹی کلیئرنس کی منسوخی کا سبب بھی رہے ہیں۔ برشیٹ کے بیان کے مطابق کچھ ری پبلکن سینیٹرز افغانستان سے غیر قانونی مالی فوائد حاصل کرتے رہے ہیں، جو پالیسی فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
امریکی انخلا اور ساز و سامان
امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں تقریباً 7.12 ارب ڈالر مالیت کا عسکری ساز و سامان موجود تھا جس کے بیشتر حصہ طالبان اور ان کے اتحادی گروہوں کے ہاتھ لگا۔ اس سے نہ صرف طالبان کی جنگی اور داخلی کنٹرول مضبوط ہوا بلکہ غیر ریاستی گروہ جن میں سرحد پار سرگرمیوں میں ملوث گروہ بھی شامل ہیں کو بالواسطہ فائدہ پہنچا۔
BREAKING: Tim Burchett just TOOK THE GLOVES OFF and called out the person suspected to be behind the stalling of his bill to stop paying the Taliban. This is HUGE!!!
— Gunther Eagleman™ (@GuntherEagleman) December 10, 2025
"We got a fellow over in the Senate who is a staffer, but he was a former, I believe, ambassador to Afghanistan,… pic.twitter.com/HBpun0XECv
پاکستان کے لیے یہ صورتحال نہایت تشویشناک ہے کیونکہ 2021 کے بعد سے اسے افغانستان سے منسلک دہشت گرد گروہوں کی وجہ سے سرحد پار حملوں میں اضافہ دیکھنا پڑا۔ طالبان حکومت ان گروہوں کی موجودگی سے انکار کرتی ہے، حالانکہ یو این مانیٹرنگ ٹیم، سگار اور مغربی انٹیلیجنس نے ان کے شواہد بھی پیش کیے ہیں۔
واشنگٹن کے مبینہ روابط
برشیٹ کے الزام سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ واشنگٹن کے بعض حلقے جو قانون سے وابستہ ہیں یا سیاست سے کابل میں طالبان حکومت کو کسی نہ کسی شکل میں مالی معاون فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ وہی تشویش ہے جو اسلام آباد مسلسل اٹھاتا رہا ہے کہ مغربی پالیسی سرکلز کا ایک حصہ انسدادِ دہشت گردی کے تقاضوں کے باوجود طالبان کو ‘‘استحکام’’ کے نام پر سیاسی یا مالی معاونت دیتا ہے۔
اگر طالبان حکومت کو مالی یا سیاسی سہارا دیا جاتا ہے جبکہ وہ عالمی سطح پر نامزد گروہوں کے خلاف قابلِ تصدیق کارروائیاں نہیں کرتی، تو یہ وعدہ خلافی اور دوہری پالیسی قرار پائے گی۔ ایسے اقدامات اُن گروہوں کو تقویت دیتے ہے جن پاکستان میں کاروائیوں میں ملوث رہے ہیں جن میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے سرفہرست ہیں۔
پاکستان کا نقطۂ نظر اور زمینی حقائق
پاکستان سرحدی حملوں اور ملحقہ علاقوں میں عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت کی وجہ سے سیکیورٹی، جانی اور معاشی قیمت ادا کر رہا ہے۔ افغانستان کا دہشت گردوں کو پناہ دینا، سہولت کاری یا سرپرستی کرنا پورے خطے کو دہشت گردی کی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
بین الاقوامی مانیٹرنگ ٹیمیں اور مغربی انٹیلیجنس متعدد بار افغان سرزمین سے نیٹ ورکنگ، تربیت، اور مالی معاونت کے ثبوت رپورٹ کر چکی ہیں۔ ریاستِ پاکستان کا روزِ اول سے یہ مطالبہ چلا آرہا ہے کہ ان گروہوں کے خلاف مؤثر اور قابلِ تصدیق اقدامات کیے جائیں پناہ گاہوں کی بندش، قیادت کی گرفتاری، مالی معاونت، اور سرحد پار حملوں کی روک تھام شامل ہے۔
ماہرین کے مطابق ‘‘ڈی فنڈ طالبان’’ بحث محض امریکی داخلی سیاست سے ہی نہیں ہے بلکہ یہ براہِ راست خطے کی سکیورٹی سے منسلک ہے۔ جب 7.12 ارب ڈالر کے چھوڑے گئے عسکری اثاثے طاقت کے توازن کو مسخ کرتے ہیں اور کابل میں عملی انسدادِ دہشت گردی اقدامات کی جگہ بیانات آتے ہیں تو کسی بھی قسم کی مالی یا سیاسی پشت پناہی حقیقتاً دہشت گرد گروہوں کے لیے بطورِ امداد کے ثابت ہوتی ہے۔ لہذا افغان طالبان کو سنجیدگی اور عالمی قوانین کینپاسداری کرتے ہوئے ان مسلح دہشت گردوں کے خلاف علمی اقدامات کرنے ہونگے۔ اور اسی صور میں خطے مین امن و استحکام ممکن ہوسکے گا۔