افغان حکومت کی جانب سے بین الاقوامی معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزیوں سے خطے کے مان وامان کو شدید خطرات لاحق ہوئے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق طالبان حکومت نے دوحہ معاہدہ سمیت مخلتف معاہدوں کے باوجود افغان سرزمین پر دہشت گرد خلاف کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی۔
قول و فعل میں تضاد
دوہزار بیس کے کے دوحہ معاہدے کے تحت افغان حکومت نے نسلی اقلیتوں کی شمولیت، خواتین کے حقوق اور دہشتگرد گروہوں کے خلاف کارروائیوں جیسے وعدے کیے تھے۔ تاہم افسوسناک المیہ یہ ہے کہ افغان حکومت نے ان میں سے اکثر شقوں پر عمل ہی نہیں کیا ہے۔ بالخصوص خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر عائد پابندیاں تاحال برقرار ہیں، جبکہ طالبان حکومت میں غیر پشتون نسلی گروہوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
دہشتگرد گروہوں کو کُھلی چھوٹ
مستند رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت نے القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور داعش خراسان جیسے دہشت گرد گروہوں کو مکمل آزادی دے رکھی ہے۔ ان گروہوں کو کابل میں رہائش، سہولیات اور اسلحہ تک رکھنے کی اجازت ہے۔ یہ صورت حال پاکستان سمیت پڑوسی ممالک کے لیے سنگین سلامتی کے خطرات پیدا کر رہی ہے۔
پاکستان کی سلامتی کو درپیش تحدیات
گزشتہ چند سالوں سے افغان حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ریکارڈ کے مطابق سرف رواں سال پاکستان 16 اہلکار دہشت گرد حملوں میں جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ جبکہ جوابی کارروائیوں میں 135 افغان شہری ہلاک ہوئے ہیں، جو دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث پائے گئے۔
سفارتی کوششوں کے نتائج
حکومتِ پاکستان نے افغان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ 2021 کے بعد سے چار وزارتِ خارجہ سطح کے دورے، آٹھ بارڈر کوآرڈینیشن کمیٹی اجلاس اور متعدد سیکرٹری سطح کی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ تاہم طالبان حکومت کی جانب سے وعدوں کے برعکس ٹی ٹی پی اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروہوں کی سرپرستی و معاونت کرنا پاکستان کے لیے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔
بین الاقوامی ردعمل
بین الاقوامی برادری نے طالبان حکومت کے رویے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر طالبان حکومت وعدوں کی پاسداری نہیں کرے گی تو انہیں عالمی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس صورت میں افغان شہریوں کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا جو پہلے ہی معاشی و رہن سہن کی مشکلات سے دوچار ہیں۔
سیکیورٹی ماہرین کے مطابق افغان حکومت کو اپنے رویے میں فوری تبدیلی لانی چاہیے۔ اگر انہوں نے دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی نہ کی اور پناہ جاری رکھی تو خطے میں سلامتی کی صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔ اس صورتحال یں پاکستان جیسے پڑوسی ممالک کو امن و سلامتی کے لیے مزید سخت اقدامات اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔