افغانستان فریڈم فرنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے جنگجوؤں نے ہفتے کی شام تقریباً 6 بجے بدخشاں کے دارالحکومت فیض آباد میں ایک گوریلا کارروائی کی، جس میں صوبائی گورنر آفس کے قریب واقع طالبان کے سکیورٹی ریزرو یونٹ کو نشانہ بنایا گیا۔
اے ایف ایف کے جاری کردہ بیان کے مطابق، اس حملے کے نتیجے میں تین طالبان اہلکار ہلاک جبکہ ایک زخمی ہوا۔ فرنٹ کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی مختصر مگر منظم تھی اور حملہ آور بحفاظت واپس نکلنے میں کامیاب رہے۔
Freedom fighters of the Afghanistan Freedom Front carried out a guerrilla operation at around 6:00 p.m. on Saturday, December 13, 2025, targeting a Taliban terrorist reserve unit near the Badakhshan provincial governor’s office in Fayzabad, the capital city of the province.
— Afghanistan Freedom Front (@FREEDOMFRONTAFG) December 14, 2025
As a… pic.twitter.com/ZHyDfeGB7t
تاحال طالبان حکام کی جانب سے اس واقعے کی سرکاری طور پر تصدیق یا تردید سامنے نہیں آئی۔
سکیورٹی ریزرو یونٹ پر حملے کا پس منظر
افغانستان فریڈم فرنٹ کے مطابق، جس سکیورٹی ریزرو یونٹ کو نشانہ بنایا گیا، اسے ماضی میں عوامی احتجاج کو دبانے، خوف و ہراس پھیلانے اور انتظامی کنٹرول کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم، ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔
شمالی افغانستان میں حملوں کا تسلسل
یہ واقعہ شمالی افغانستان میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سامنے آنے والی متعدد مزاحمتی کارروائیوں کی کڑی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں بدخشاں، تخار اور پنجشیر کے مختلف علاقوں میں طالبان کی تنصیبات اور گشت کرنے والے دستوں کو نشانہ بنائے جانے کے دعوے سامنے آئے ہیں، جن کی ذمہ داری زیادہ تر افغانستان فریڈم فرنٹ اور نیشنل ریزسٹنس فرنٹ نے قبول کی ہے۔ حال ہی میں این آر ایف کے کابل حملے میں 17 طالبان اہلکار ہوئے تھے جبکہ قندوز اور ہرات میں بھی این آر ایف نے کاروائیاں کی ہیں۔
ان تنظیموں کے سوشل میڈیا بیانات کے مطابق، یہ حملے طالبان کے سکیورٹی ڈھانچے پر دباؤ بڑھانے اور شمالی صوبوں میں اپنی موجودگی ظاہر کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
شمال میں بڑھتی ہوئی مسلح مزاحمت
تجزیہ کاروں کے مطابق، شمالی افغانستان میں حالیہ کارروائیوں کا تسلسل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ طالبان کے اقتدار کے باوجود مسلح مزاحمت مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ بدخشاں، پنجشیر اور ملحقہ علاقوں میں چھوٹے پیمانے پر حملے ایک ایسی بغاوت کی علامت سمجھے جا رہے ہیں جو محدود وسائل کے باوجود خود کو منظم رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ کارروائیاں فی الحال اسٹریٹجک نوعیت کی نہیں، تاہم ان کا تسلسل طالبان کے لیے سکیورٹی اور انتظامی سطح پر ایک مستقل چیلنج بن سکتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب معاشی دباؤ اور اندرونی عدم اطمینان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
موجودہ صورتحال
فیض آباد میں حملے کے بعد شہر میں سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے، جبکہ طالبان کی جانب سے کسی جانی نقصان یا کارروائی کی تفصیلات پر خاموشی برقرار ہے۔ دوسری جانب، افغانستان فریڈم فرنٹ نے عندیہ دیا ہے کہ شمالی افغانستان میں اس نوعیت کی کارروائیاں آئندہ بھی جاری رہیں گی۔
دیکھیں: افغانستان بحران کے دہانے پر، خواتین کی تعلیم اور انسانی حقوق پر عالمی تشویش میں اضافہ