ہیومن رائٹس واچ نے تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اگست 2021 میں طلبان کے برسرِ اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں آزاد صحافت کو انتہائی منظّم انداز سے ختم کیا جا رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق طالبان حکومت نے میڈیا پر سنسرشپ، نگرانی، بلا وجہ گرفتاریوں اور تشدد کے ذریعے آزادیٔ اظہار راٗے کو مشکل بنا دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی مذکورہ رپورٹ افغانستان میں میڈیا سے وابستہ افراد کے دل کی ترجمانی کرتی ہے۔ متعدد صحافیوں نے بتایا ہے کہ انہیں اس قدر تشدد کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں، جبکہ وہ نفسیاتی طور پر بھی شدید متاثر ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اقلیتوں خاندانوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے ساتھ تو خاص طور پر ایسا سلوک کیا گیا ہے۔ دوسری جانب خواتین صحافیوں پر بھی سخت پابندیاں عائد ہیں انہیں نہ صرف کام سے روکا جا رہا ہے بلکہ لباس سمیت دیگر ضوابط پر عمل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کو میڈیا کے شعبے سے بے دخل بھی کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ طالبان حکومت کے تشدد و خوف کے باعث درجنوں افغان صحافیوں کو ملک چھوڑنا پڑا ہے۔ تاہم، دوسری سرزمین پر رہتے ہوئے بھی وہ مستقل خوف کا شکار ہیں کہ کہیں انہیں زبردستی واپس نہ بھیج دیا جائے۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ افغانستان کا میڈیا سسٹم تقریباً ناکارہ ہو چکا ہے اور طالبان حکومت کی پالیسیوں کے باعث افغآنستان میں آزادیٔ اظہار پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
دیکھیں: وزیرِ دفاع کا بیان ہی پاکستان سے معاہدے کی اصل تفصیل ہے؛ افغان وزارت دفاع