پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے اہم رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی سمیت متعدد دہشت گرد گروہوں کے تربیتی مراکز، محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جو باقاعدہ افغان طالبان کی سرپرستی میں فعال ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کے اہم کمانڈر موجود ہیں، جہاں انہیں باقاعدہ مالی معاونت اور اسلحہ سمیت دیگر سہولیات دی جاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق جون 2025 کے بعد سے پاکستان نے 172 دہشت گرد تشکیلات کی نشاندہی کی ہے، جن میں سے تقریباً 4,000 دہشت گرد عناصر خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں داخل ہوئے ہیں جبکہ بلوچستان میں 1,200 سے زائد عناصر موجود ہیں۔
ٹی ٹی پی کمانڈر کی موجودگی
رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی کے کمانڈر نور ولی محسود تاحال کابل میں مقیم ہیں اور انہیں افغان حکام کی جانب سے ماہانہ 43,000 امریکی ڈالر دیے جارہے ہیں۔ سیکیورٹی حلقوں کا کہنا ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی و دیگر دہشت گروہوں کی سرگرمیوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں لیکن یہ زمینی حقائق کے برخلاف اور برعکس ہے۔
افغانستان سے ہونے والے حملوں میں نقصانات
گزشتہ چند سالوں کے سے افغانستان سے دراندازی کرنے والے دہشت گردوں نے پاکستان میں پشاور، بنوں، بشم، ڈیرہ اسماعیل خان، میر علی اور شمالی وزیرستان سمیت متعدد علاقوں میں متعدد خودکش اور بم دھماکے کیے ہیں جن میں سینکڑوں معصوم شہری جاں بحق اور زخمی ہوئے ہیں۔
افواجِ پاکستان کی کارروائیاں
سال 2025 کے دوران پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 135 دہشت گردوں کو ہلاک کیا، جن میں اکثریت افغان شہریوں کی تھی۔ اب تک مجموعی طور پر 267 افغان دہشت گردوں کی شناخت ہو چکی ہے۔ جبکہ شمالی وزیرستان اور ژوب کے آپریشنز کے بعد طالبان حکومت نے لاشوں کی واپسی کی درخواست نے افغان شہریوں کی شمولیت کو عملاً تسلیم کر لیا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ
اقوام متحدہ کی 36ویں مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے چھ صوبے غزنی، ہلمند، قندھار، کنڑ، اورزگان اور زابل القاعدہ کے جنگجوؤں اور تربیتی کیمپوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں مہیا کر رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کے تقریباً 6,000 جنگجو افغانستان میں موجود ہیں جبکہ بی ایل اے کے 300 سے زائد دہشت گرد قندھار، ہلمند، ہرات، فراه اور کابل میں فعال ہیں۔ اس کے علاوہ داعش خراسان، ای ٹی آئی ایم، ٹی ٹی ٹی، آئی ایم یو، القاعدہ، فتنۃ الخوارج اور جمعۃ العدل جیسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیمیں بھی افغان سرزمین کو اپنی سرگرمیوں کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔
افغان شہریوں کا دہشت گردانہ کاروائیوں میں کردار
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں افغان شہریوں کی شمولیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حالیہ برسوں میں 70 سے 80 فیصد دراندازی کرنے والے افراد افغان شہری ہیں جبکہ اس سے قبل یہ تعداد محض 5 سے 10 فیصد تھی۔
افغان دہشت گردوں کے نمایاں حملے
مارچ 2022 میں افغان دہشت گرد یاسین نے پشاور کے امام بارگاہ کوچہ رسالدار میں خودکش حملہ کیا، 18 جولائی 2023 کو حیات آباد پشاور میں افغان بمبار غیرت اللہ اور اس کے ساتھی حملہ آور ہوئے، اگست اور ستمبر 2023 میں خیبر پختونخوا کےضلع بنوں میں افغان شہری ضرار اور ابوبکر نے خودکش دھماکے کیے، جبکہ رابین اللہ نے نومبر میں اسی ضلع میں حملہ کیا۔ سال 2024 میں بشام میں مطیقی اور بنوں میں عثمان اللہ نامی افغان دہشت گردوں نے خودکش حملے کیے۔ جبکہ سال 2025 ڈیرہ اسماعیل خان میں اجمل اور میرعلی میں بچا زرین نے خودکش حملوں میں ہلاک ہوٗے۔ اسی سال شمالی وزیرستان میں 45 افغان دہشت گردوں کو جائے واردات پر ہی ہلاک کیا گیا۔ جولائی 2025 میں صداقت، ابوذر، صمد اور سیف سمیت 9 افغان دہشت گردوں کو پاکستانی سیکیورٹی اہلکاروں نے ہلاک کیا۔
پاکستان کا مؤقف
پاکستانی حکام کا مؤقف ہے کہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال بند ہونا چاہیے۔ افغان حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کرنا نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرے کا باعث ہے۔