طالبان کے زیرِ انتظام افغانستان میں انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ 2026 کے لیے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق تقریباً 21.9 ملین افراد یعنی آبادی کا تقریباً 45 فیصد کو زندگی بچانے والی امداد درکار ہے۔ یہ اعداد و شمار ملک کی انسانی اور معاشی صورتحال کی سنگینی کا واضح عکاس ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں مجموعی انسانی حالات مسلسل خراب ہو رہے ہیں، حالانکہ نومبر 2021 کے بعد سے عالمی برادری نے اربوں ڈالر امداد فراہم کی ہے۔ اس کے باوجود امدادی کوششیں بحران کو روکنے میں ناکام رہی ہیں۔
خوراک کے بحران میں اضافہ اور خوراک کی شدید قلت
خاص طور پر خوراک کی عدم دستیابی ایک فوری تشویش ہے: اندازہ ہے کہ 17.4 ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہوں گے، جن میں سے 5.2 ملین افراد کو ایمرجنسی سطح کی حالت قرار دیا گیا ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔
ملک کے بارہ صوبے شدید خشک سالی کا شکار ہیں، اور موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض کے پھیلاؤ، اور 2025 میں ایران و پاکستان سے افغانستان واپسی کرنے والے 2.52 ملین افراد نے پہلے ہی نازک نظام کو مزید زبردست دباؤ میں ڈال دیا ہے۔
حفاظتی خطرات، سماجی بحران اور انسانی حقوق پر سوالات
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے لیے تحفظ کے خطرات بہت بڑھ گئے ہیں۔ موجودہ قدغنیں اور سماجی پابندیاں ان کے بنیادی حقوق اور زندگی کی حفاظت کے لیے خطرہ بن چکی ہیں۔
اسی طرح، مائنز اور دھماکہ خیز سامان کی آلودگی برقرار ہے ۔ ماہانہ تقریباً 50 افراد زخمی یا ہلاک ہو رہے ہیں۔ اقتصادی دباؤ کے باعث بچوں کی مشقت، قبل از وقت شادیوں میں اضافہ ہوا ہے۔
عالمی امداد: بڑی رقم، محدود اثر
بین الاقوامی امدادی ادارے 2026 کے لیے تقریباً 1.72 ارب ڈالر کے منصوبے کے تحت 17.5 ملین افراد کو خوراک، پناہ، صحت کی سہولتیں، محفوظ پانی اور نقد امداد فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
تاہم رپورٹ کے مطابق امدادی سرگرمیوں کی رفتار بحران کی شدت کے مقابلے میں کم ہے — یعنی ضرورتیں امداد سے جلدی بڑھ رہی ہیں اور امداد ان کی تکمیل سے قاصر معلوم ہوتی ہے۔
گورننس اور مینجمنٹ پر سوالات؛ بحران کی جڑیں گہری
حالیہ حالات ایک سنگین سوال اٹھاتے ہیں: حکومت اور عبوری انتظامیہ کی گورننس صلاحیت کیا ہے؟ کیا امدادی وسائل شفاف انداز میں تقسیم ہو رہے ہیں؟ کیا امداد کی ترسیل، انتظام اور نگرانی کے معاملات موثر ہیں؟
یہ سوالات اس لیے اہم ہیں کہ افغانستان میں مدد کے باوجود صورتِ حال خراب ہورہی ہے۔ ماہرین اور امدادی تنظیمیں کہتے ہیں کہ اگر گورننس میں شفافیت، امداد تک باقاعدہ رسائی، اور موثر انتظام شامل نہ ہوا تو یہ انسانی بحران مزید گہرا ہوتا جائے گا۔
دیکھیں: افغانستان میں جنگی جرائم؛ برطانوی اسپیشل فورسز کے گھناؤنے کردار پر انکشافات