پاکستان کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان سفیر صادق خان نے چین کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان ہائی ایکسی لینسی یوئے شیاویونگ سے ملاقات کی ہے، جس میں افغانستان سے کام کرنے والی دہشت گرد تنظیموں کے بڑھتے ہوئے خطرات اور علاقائی سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
یہ ملاقات پاک چین مستقل مشاورت کے اُس سلسلے کا حصہ ہے جو دونوں ممالک کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کے تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے جاری ہے۔
چینی نمائندے کی اسلام آباد آمد ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب خطے میں دہشت گرد نیٹ ورکس کی سرگرمیوں کے باعث نئی تشویش جنم لے رہی ہے۔
Met with Chinese Special Representative for Afghanistan, HE Yue Xiaoyong, to discuss threat to regional security from terrorist organizations based in Afghanistan. Ambassador Yue's visit is part of regular Pakistan-China consultations aimed at enhancing counter-terrorism… pic.twitter.com/ldEflnf0oq
— Mohammad Sadiq (@AmbassadorSadiq) December 11, 2025
حالیہ عرصے میں ای ٹی آئی ایم/ای ٹی ایل ایف سے وابستہ شدت پسندوں کے ایک ڈرون حملے میں تاجکستان میں چینی ورکرز کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بعد بیجنگ نے علاقائی سطح پر ’’ٹرانس نیشنل دہشت گرد نیٹ ورکس‘‘ کی موجودگی اور ان کے بڑھتے خطرے کو غیر معمولی سنجیدگی سے اٹھایا ہے۔
افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کا ازسرِنو فعال ہونا
ملاقات میں اس خفیہ اطلاعات پر بھی بات کی گئی جن کے مطابق ای ٹی آئی ایم، ٹی آئی پی اور ای ٹی ایل ایف نے اپریل 2025 کے بعد افغانستان کے شمالی اور شمال مشرقی صوبوں خصوصاً بلخ، بدخشاں، بغلان اور کابل میں تربیتی کیمپ دوبارہ مکمل طور پر فعال کر لیے ہیں۔ ان اطلاعات کے مطابق یہ نیٹ ورکس طالبان دورِ حکومت میں پہلے سے زیادہ منظم انداز میں آپریٹ کر رہے ہیں، جبکہ انہیں ٹی ٹی پی کے کیمپوں میں بھی جگہ فراہم کیے جانے کی رپورٹس موجود ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق 2023 سے یہ شواہد سامنے آ رہے ہیں کہ متعدد یوغور جنگجوؤں کو ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستانی مخالف گروہوں کی آڑ میں افغانستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم کیے گئے۔ مزید یہ کہ القاعدہ کی جانب سے ان گروہوں کو ’’نام بدل کر‘‘ کام کرنے کا مشورہ دیا گیا، تاکہ چین کی جانب سے ہونے والے سفارتی دباؤ سے بچا جاسکے۔ اسی حکمت عملی کے تحت ای ٹی آئی ایم/ٹی آئی پی کے نیٹ ورک کو ’’ای ٹی ایل ایف‘‘ کے نام سے ری برانڈ کیا گیا ہے۔
پاک افغان تعلقات اور خطے کی سکیورٹی صورتحال
یہ ملاقات ایسے ماحول میں ہوئی ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانوں اور سرحد پار حملوں کے باعث کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ طالبان حکومت اب تک ٹی ٹی پی اور اس سے منسلک ٹرانس نیشنل گروہوں بشمول ای ٹی آئی ایم/ای ٹی ایل ایف، ٹی آئی پی، بی ایل اے اور القاعدہ کو عملی طور پر ختم کرنے میں ناکام رہی ہے۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور چین کا مشترکہ مؤقف ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیے اور کابل کو اس حوالے سے ’’قابلِ تصدیق‘‘ انسدادِ دہشت گردی اقدامات کرنے چاہئیں۔
طالبان کے اپنے فتوے، مگر عملی تضاد برقرار
یہ امر قابل غور ہ کہ کابل نے دو مرتبہ فتوے جاری کیے جن میں 3 اگست 2023 کو دارالافتاء کا فتویٰ بھی شامل ہے جن میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔ تاہم ان پالیسی بیانات کے باوجود ٹی ٹی پی، بی ایل اے، ای ٹی آئی ایم/ای ٹی ایل ایف اور القاعدہ کے نیٹ ورکس کی مسلسل سرگرمیاں ان دعوؤں سے متصادم ہیں۔
ذمہ دارانہ سفارت کاری، کشیدگی نہیں
ذرائع کے مطابق پاکستان اور چین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دونوں ممالک خطے میں استحکام کے لیے ’’مسلسل مشاورت‘‘ اور ’’کثیر جہتی تعاون‘‘ جاری رکھیں گے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات کسی قسم کی کشیدگی بڑھانے کے لیے نہیں بلکہ خطے کو ٹرانس نیشنل دہشت گردی کے سنگین خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے ذمہ دارانہ سفارت کاری کا حصہ ہے۔
دونوں ملکوں نے زور دیا کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہ نہ صرف پاکستان اور چین بلکہ وسطی ایشیا، خطے کی تجارت، سی پیک کی سلامتی اور وسیع تر علاقائی استحکام کے لیے براہِ راست خطرہ ہیں، اور ان کے خلاف مشترکہ حکمتِ عملی وقت کی اہم ضرورت ہے۔