متقی نے کہا کہ بھارت نے افغانستان میں اپنے ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جو منصوبے ادھورے رہ گئے تھے، انہیں مکمل کیا جائے گا اور جو شروع نہیں ہو سکے، ان پر دوبارہ کام کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے جاتی عمرہ میں سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات بھی کی، جس میں پاک۔افغان سرحدی کشیدگی اور دیگر ملکی امور پر تفصیلی مشاورت کی گئی۔
پاکستانی عہدیدار نے ان الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کا ریکارڈ واضح ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “پاکستان نے دہشت گردی کے تمام مظاہر کا مقابلہ کیا ہے، جبکہ طالبان خود دہشت گرد گروہوں کو پناہ دیتے رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر داعش کے ٹھکانوں کو نظر انداز کر رہا ہے، جہاں سے افغانستان اور دیگر ممالک میں دہشت گردی کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’امریکی قبضے کے دوران اتار چڑھاؤ کے باوجود طالبان نے کبھی بھارت کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا اور ہمیشہ بہتر تعلقات کے خواہاں رہے۔‘‘
مذہبی علما کو نظامِ شریعت کے محافظ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ مجاہدین اور سرکاری عہدیداران کو علما سے مشاورت کرنی چاہیے اور ان کے فتووں اور رہنمائی پر عمل کرنا لازم ہے۔
سیاسی و دفاعی ماہرین کے مطابق، عوامی ایکشن کمیٹی کا یہ مؤقف براہِ راست بھارتی بیانیے کو تقویت دیتا ہے، جو برسوں سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ “کشمیر تقسیم ہو چکا ہے”۔