پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے پاکستان کو اعتماد سازی کے اقدام کے طور پر ’مخصوص افراد‘ کو بھارت کے حوالے کرنے پر کوئی اعتراض نہیں، تاہم اس کے لیے نئی دہلی کو اس عمل میں تعاون پر آمادگی ظاہر کرے۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات ہوں، جس میں دہشت گردی کے مسئلہ پر بات ہو، تو مجھے یقین ہے کہ پاکستان کو ان معاملات پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اس سے قبل بھی بلاول بھٹو زرداری خطے میں امن قائم کرنے کے لیے متعدد بار پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت کے لیے زور دے چکے ہیں۔
بلاول بھٹو کا یہ بیان حالیہ تناظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں اس بیان کو بھارتی حکام اور میڈیا میں پذیرائی حاصل ہوئی ہے وہیں پر پاکستانی حلقوں نے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے۔ پہلگام حملے اور اس کے بعد پاک بھارت جنگ کے بعد کے حالات اور جنگ بندی کے دورانیے میں اس بیان کا سامنے آنا سفارتی سطح پر گہرا اثر ڈال سکتا ہے۔ تاہم سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ بلاول کی ذاتی رائے ہے یا ریاست پاکستان کا نیا بیانیہ؟ اس سے قبل کبھی بھی پاکستان کی جانب سے بھارت کو اس طرح کی آفر نہیں دی گئی۔ بھارت مسلسل مخصوص افراد کی بھارت کو حوالگی کا مطالبہ کرتا رہا ہے تاہم پاکستان ان تمام افراد پر لگائے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بھارت کو اس مطالبے پر انکار کرتا آیا ہے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام کا رد عمل
بلاول بھٹو کے اس بیان پر پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور عوام نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ حکومتی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن یا حکومت پاکستا ن نے اس بیان پر کوئی ردعمل نہیں دیا تاہم اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ہفتے کے روز بلاول بھٹو زرداری کے مبینہ طور پر ’’معافی مانگنے والے‘‘، ’’جھکاؤ والے‘‘ اور ’’غلط طور پر اعتماد سازی کے اقدامات‘‘ کے تحت پاکستانی شہریوں کو بھارت کے حوالے کرنے کی پیشکش پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسے قومی سلامتی اور ریاستی خودمختاری کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے ترجمان شیخ وقاص اکرم نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بلاول بھٹو ایک ناپختہ سیاسی بچے ہیں جن کے غیر ذمہ دارانہ اور ناعاقبت اندیش بیانات پاکستان کے بیانیے کو نقصان پہنچاتے اور ملک کو عالمی سطح پر شرمندہ کرتے ہیں۔
https://www.dawn.com/news/1922404
جماعت اسلامی پاکستان نے بھی اس بیان پر شدید تشویس کا اظہار کرتے ہوئے بلاول بھٹو سے وضاحت مانگی ہے۔ پاکستان مرکزی مسلم لیگ نے اس بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر خارجہ کی طرف سے ایسے بیان کا سامنے آنا انتہائی افسوسناک بات ہے۔ انہوں نے بلاول سے کہا کہ وہ قوم سے معافی مانگیں اور بیان پر وضاحت جاری کریں۔ اس کے علاوہ مرکزی جمیعت اہلحدیث، پاکستان نظریاتی پارٹی اور دیگر جماعتوں نے بھی بلاول کے اس بیان کی شدید مذمت کی ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے بھی بلاول کے اس بیان پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین نے لکھا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ بلاول کے اس بیان کے برعکس رہی ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا ، “بلاول کو ایک بھارتی صحافی نے آسانی سے اپنے جال میں پھنسا لیا اور ان سے وہ بیان دلوا دیا جو بھارت کب سے سننے کا متمنی تھا۔” ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ “جن لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر بھارت حوالگی کی بات کی جا رہی ہے وہ ہمیشہ پاکستان کی بقا کی بات کرتے ہیں اور ہر مشکل گھڑی میں عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں پیش پیش ہوتے ہیں۔
بھارت کی الزام تراشی کی روش
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ بھارت نے پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگایا ہو۔ مختلف شخصیات کو نشانہ بناتے ہوئے بھارت پاکستان کو مسلسل دہشت گردی کیلئے مورد الزام ٹھہراتا آیا ہے مگر کبھی بھی اپنے دعوؤں کو ٹھوس شواہد کی مدد سے ثابت نہیں کر سکا۔ پاکستان کی مقامی عدالتوں سے لے کر عالمی عدالتوں تک بھارت مسلسل الزام تراشی کے باوجود کبھی یہ ثابت نہیں کر پایا کہ پاکستان یا کوئی پاکستانی نژاد شخص بھارت میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہے۔
اس کے برعکس اگر جائزہ لیا جائے تو بھارت جہاں ایک طرف اپنے ہی ملک میں اقلیتوں پر ظلم کرتا ہے، وہیں پاکستان سمیت دوسرے ممالک میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی ملوث رہتا ہے۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود گجرات کے کئی ہزار بے گناہ مسلمانوں کے قتل میں ملوث رہے ہیں۔ ان پر خود دہشت گردی کے الزامات رہے ہیں جس کے باعث وزیراعظم بننے سے قبل تک وہ امریکہ سمیت کئی جگہوں پر جانے کیلئے اہل نہیں تھے۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر کو بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا رکھا ہے۔ لاکھوں بے گناہ کشمیریوں کو اب تک مارا چکا ہے جب کہ ان گنت اب تک لاپتہ ہیں۔ بچوں، بوڑھوں اود خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

اسی طرح بھارت کے اندر سکھوں، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ جس طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، شاید ہی دنیا کے کسی دوسرے ملک کی اقلیتیں اتنا ظلم برداشت کرتی ہوں۔
پاکستان میں دہشت گردی میں بھارتی کردار
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں۔ بلوچستان میں نام نہاد علیحدگی پسند تحریکوں کی پشت پناہی بھی بھارت ہی کرتا آیا ہے۔ بی ایل اے جیسی دہشت گرد تنظیم کے پیچھے بھی بھارت ہے جس کے ناقابلِ تردید شواہد پاکستان نے بار ہا پیش کیے ہیں۔ کل بھوشن یادیو کا اپنے نیٹورک سمیت پاکستان سے پکڑا جانا پاکستان میں بھارتی دہشت گردی کی واضح مثال ہے۔ بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے اتنے شواہد موجود ہیں ہیں کہ پاکستانی اداروں نے نے بی ایل اے کو باقاعدہ “فتنہ الہندوستان” کا نام دے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ خیبر پختونخوا میں بھی بھارتی دہشت گردی کسی کی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہے۔
یہ سلسلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ کینیڈا میں سکھ لیڈرہردیپ سنگھ نجار کے قتل سمیت ان گنت جرائم میں بھارت ملوث ہے جس کے شواہد دنیا بھر کے میڈیا کے پاس موجود ہیں۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ ریاست پاکستان اور عوام اس بات پر متفق ہیں اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت میں ہونے والی دہشت گردی میں پاکستان اور کوئی بھی پاکستانی ملوث نہیں ہے۔ اس سے قبل جن افراد پر بھارت ایسے الزامات لگاتا آیا ہے، ان پر کبھی کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔ اسلیئے کسی بھی پاکستانی شہری کی بھارت حوالگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم بھارت اگر خود اپنے گریبان میں جھانک کر اپنے اندر کے دہشت گردوں کی سرکوبی میں کامیاب ہو جائے اور ریاستی لیول کی دہشت گردی بند کر دے تو نہ صرف خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے بالکل دنیا بھر پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بلاول بھٹو زرداری کا بیان ان کی ذاتی رائے ضرور ہو سکتی ہے مگر عوام پاکستان اپنی ریاست کے اس بیانیے کی پوری تائید کرتی ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے بھارتی دہشت گردی کا شکار رہا ہے تاہم بھارت یا کسی بھی خطے میں کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث نہیں رہا۔