انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر کریِم خان نے انکشاف کیا ہے کہ برطانوی حکومت نے انہیں خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے تو برطانیہ نہ صرف آئی سی سی کی فنڈنگ روک دے گا بلکہ روم اسٹیچوٹ سے بھی علیحدگی اختیار کر لے گا، وہی معاہدہ جس کے تحت عدالت قائم کی گئی تھی۔
یہ انکشافات کریِم خان کی اس تحریری جمع بندی میں سامنے آئے ہیں جو انہوں نے اسرائیلی درخواست کے جواب میں عدالت میں جمع کروائی ہے۔ اس درخواست میں تل ابیب نے نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآف گالانٹ کے خلاف وارنٹس ختم کرنے کی اپیل کی تھی۔
برطانوی اور امریکی سیاسی دباؤ؛ سخت اور غیر معمولی
خان کے مطابق یہ دھمکی آمیز فون کال 23 اپریل 2024 کو ایک برطانوی اہلکار کی جانب سے کی گئی۔ اگرچہ انہوں نے نام ظاہر نہیں کیا، لیکن مختلف رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ کال اُس وقت کے برطانوی وزیرِخارجہ ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے تھی۔
اہلکار نے مؤقف اختیار کیا کہ نیتن یاہو اور گالانٹ کے خلاف وارنٹس ’’غیر متناسب‘‘ اقدامات ہوں گے۔
خان نے مزید بتایا کہ ایک امریکی اہلکار نے بھی انہیں خبردار کیا کہ وارنٹس جاری کرنے کی ’’انتہائی سنگین‘‘ نتائج برآمد ہوں گے۔
1 مئی کو امریکی سینیٹر لنڈسے گراہم نے انہیں کہا کہ اگر آئی سی سی نے وارنٹس جاری کیے تو ’’حماس یرغمالیوں کو مار ڈالنے پر اُکسی جائے گی‘‘۔
غیر متعلقہ الزامات کے ذریعے دبانے کی کوششیں؟
خان کے مطابق 2 مئی کو انہیں پہلی مرتبہ اپنے خلاف مبینہ ’’جنسی غلط روی‘‘ کے الزامات کا پتا چلا۔ 6 مئی کو ایک تیسرے فریق نے اطلاع دی کہ کسی شخص نے مبینہ متاثرہ خاتون کی رضامندی کے بغیر ان کے خلاف شکایت دائر کی۔
خاتون نے تحقیقات سے انکار کیا تو معاملہ بند کر دیا گیا، لیکن اکتوبر میں سوشل میڈیا پر ایک گمنام اکاؤنٹ نے اسے دوبارہ اچھالنا شروع کیا۔
خان کے مطابق یہ تمام الزامات ایسے وقت سامنے آئے جب وہ اسرائیل کے خلاف کارروائی کے آخری مراحل پر کام کر رہے تھے، مگر ان کا کہنا ہے کہ وارنٹس کی تیاری ان الزامات سے پہلے ہی مکمل ہو چکی تھی۔
آئی سی سی کی آزادی پر عالمی خدشات مزید گہرے
خان نے اپنی جمع بندی میں زور دیا کہ انہوں نے انتہائی غیر جانب داری سے کام کیا، اور ’’میڈیا کی قیاس آرائیوں‘‘ پر مبنی باتوں کو بنیاد بنا کر ان کی نااہلی کا مطالبہ بلاجواز ہے۔
تاہم، ان کے یہ انکشافات دو اہم پہلوؤں کو مزید سنگین بنا دیتے ہیں:
- یہ اب کوئی خام خیال نہیں رہا کہ غزہ سے متعلق مقدمات شروع ہونے سے پہلے ہی عالمی طاقتیں سیاسی دباؤ ڈالتی ہیں۔
- عالمی انصاف کے نظام کی آزادی اور غیر جانب داری پر بنیادی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔
خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک خصوصی ماہر پینل تشکیل دیا تھا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ آیا آئی سی سی کے پاس اسرائیلی رہنماؤں اور تین حماس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا دائرہ اختیار موجود ہے یا نہیں اور شواہد کی بنیاد پر کارروائی آگے بڑھائی جائے۔
نتیجہ
آئی سی سی پراسیکیوٹر کے یہ بیانات محض اندرونی اختلافات نہیں بلکہ عالمی سطح پر سیاسی اثراندازی کے ایسے شواہد ہیں جو غزہ، اسرائیل اور جنگی جرائم کے مقدمات میں عدالتی عمل کی ساکھ کو براہِ راست چیلنج کرتے ہیں۔
یہ صورتِ حال نہ صرف عالمی عدالتی نظام کی آزادی کے لیے خطرہ ہے بلکہ متاثرہ خطوں میں پہلے سے موجود بے اعتمادی کو بھی مزید بڑھا رہی ہے۔