افغانستان میں صحافت کی آزادی مسلسل خطرے کی زد میں ہے، جہاں طالبان کے سخت گیر اقدامات کے باعث صحافیوں کو گرفتاریوں، تشدد، دھمکیوں اور طویل حراست جیسے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ اسی صورتحال کے پیش نظر عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس سی پی جے نے طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی انسانی حقوق کے دن (10 دسمبر) سے قبل اپنے زیرِ حراست تمام صحافیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔
سی پی جے کے مطابق طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پریس فریڈم شدید تنزلی کا شکار ہے۔ تنظیم نے دو صحافیوں، مہدی انصاری اور حمید فرہادی کی فوری رہائی کا خاص طور پر مطالبہ کیا ہے جنہیں کسی شفاف قانونی کارروائی اور جرمانے کے بغیر کئی ماہ سے قید رکھا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ان کے علاوہ کم از کم نو مزید صحافی بھی طالبان کی خفیہ ایجنسی کی تحویل میں ہیں۔
صحافیوں کے خاندانوں اور میڈیا تنظیموں نے بتایا ہے کہ افغانستان میں آزاد صحافت پر مکمل دباؤ ہے، رپورٹرز غیر منصفانہ چھاپوں، زبردستی حراست اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہیں۔ خاص طور پر وہ صحافی جو قومی مزاحمتی محاذ سے متعلق خبریں یا طالبان کی کارروائیوں پر تنقیدی رپورٹس شائع کرتے ہیں، انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خواتین صحافیوں کو اور بھی شدید پابندیوں کا سامنا ہے، کئی کو دفاتر میں داخلے تک سے روک دیا گیا ہے۔
رپورٹس کے مطابق طالبان کا مقصد میڈیا کو مکمل طور پر خاموش کرنا اور خبری بیانیے پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا ہے، جس کے باعث افغانستان میں سچ بولنا اور عوام تک حقائق پہنچانا ایک خطرناک عمل بن چکا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ طالبان آزادیِ اظہار اور بنیادی انسانی حقوق کے کھلے دشمن بن چکے ہیں اور جھوٹی دعووں کے برعکس افغانستان میں آزادی رائے موجود نہیں رہی۔
دوسری جانب دنیا بھر کے 100 سے زائد ممالک کے 1,500 سے زیادہ صحافیوں نے سی پی جے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے طالبان حکام پر عالمی دباؤ بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔ انسانی حقوق تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس صورتحال پر فوری توجہ نہ دی گئی تو افغانستان میں میڈیا کی آزادی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی، جو ملک کے مستقبل اور عوام کے بنیادی حقوق کے لیے نہایت خطرناک ہے۔