افغانستان میں سرگرم تنظیم جبههٔ بسیج ملی افغانستان نے دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان خصوصاً تاجکستان کی سرحد کے قریب چینی کارکنان ’’شدید اور منظم دہشت گردانہ خطرات‘‘ سے دوچار ہیں۔
تنظیم کے مطابق یہ خطرہ ایک ایسی ’’مربوط اور پیشگی طے شدہ کارروائی‘‘ سے جڑا ہوا ہے جس میں طالبان کی انٹیلی جنس، تحریک طالبان پاکستان، ترکستان اسلامک پارٹی، اور مبینہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی حمایت شامل ہے۔
Chinese Nationals in Afghanistan Face a Serious Terror Threat by taliban Intelligence Networks and India-Backed Taliban Elements
— جبهه بسیج ملی National mobilization Front (@AfghanistanNMF) December 5, 2025
The National Mobilization Front of Afghanistan (NMF) has obtained credible intelligence indicating that Chinese workers employed near the…
چینی شہریوں پر حملے کا الزام
این ایم ایف کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے افغانستان و تاجکستان کی سرحد کے قریب چینی کارکنوں کے ایک کیمپ پر مبینہ حملہ کیا گیا، جس میں تین چینی شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ حملہ دو مرحلوں میں کیا گیا:
- پہلے دھماکا خیز مادے سے لیس ڈرون کا استعمال
- پھر زمینی فائرنگ، جس میں کلاشنکوف، بھاری مشین گن اور ایم-4 رائفلوں کا استعمال کیا گیا
یہ واقعہ 26 اور 27 نومبر 2025 کی درمیانی شب، صوبہ ختلان (تاجکستان کی جانب) میں شاہین ایس ایم کمپنی کے کارکنان کے کیمپ کے قریب پیش آنے کا کہا گیا ہے۔
بھارتی خفیہ اداروں سے روابط کے الزامات
این ایم ایف کے مطابق:
- رواں سال کے دوران بھارتی انٹیلی جنس عہدیداروں نے افغانستان کے متعدد دورے کیے
- ان ملاقاتوں میں طالبان حکام، ٹی ٹی پی، ٹی آئی پی، بی ایل اے اور بعض القاعدہ کمانڈرز بھی شامل رہے
- ان گروہوں نے جدید ڈرون، مالی مدد اور آپریشنل تعاون کی درخواست کی
تنظیم کا کہنا ہے کہ ڈرونز اور جدید آلات بھارت کی طرف سے فراہم کیے گئے، جن میں سے کچھ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو بھی منتقل کیے گئے۔
این ایم ایف نے دعویٰ کیا کہ طالبان انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ 561 کے افراد نے براہِ راست اس کارروائی کی منصوبہ بندی اور رہنمائی کی۔
چین کو انتباہ
این ایم ایف نے چین کی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں موجود چینی شہری، خصوصاً سرحدی علاقوں میں کام کرنے والے، سنگین خطرات میں ہیں۔ تنظیم نے چین سے ’’فوری حفاظتی اقدامات‘‘ اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔
طالبان یا بھارت کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں
رپورٹ کی اشاعت تک طالبان حکام یا بھارتی حکومت کی جانب سے ان الزامات پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔