نئی دہلی میں تاریخی لال قلعہ اور میٹرو اسٹیشن کے قریب ہونے والے ایک کار دھماکے میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور بیس سے زائد زخمی ہوگئے۔ پولیس کے مطابق دھماکہ پیر کی شام مقامی وقت کے مطابق 6 بج کر 52 منٹ پر اُس وقت ہوا جب ایک سست رفتاری سے چلنے والی کار ٹریفک سگنل پر رکی تھی اور اچانک زوردار دھماکے سے پھٹ گئی۔
دھماکے کا مقام اور ابتدائی تفصیلات
پولیس ترجمان سنجے تیاگی نے بتایا کہ دھماکہ ایک ہنڈائی گاڑی میں ہوا جس میں تین افراد سوار تھے۔ دھماکے کے نتیجے میں کار مکمل طور پر تباہ ہوگئی جبکہ اردگرد کھڑی دیگر گاڑیوں اور دکانوں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق دھماکے کے بعد علاقے میں بھگدڑ مچ گئی اور لوگ خوفزدہ ہو کر ہر طرف دوڑنے لگے۔
سیکیورٹی ہائی الرٹ اور جانچ
دھماکے کے بعد نئی دہلی کے حساس علاقوں، بشمول انڈرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ، دہلی میٹرو، سرکاری عمارتوں اور لال قلعہ کے اطراف سیکیورٹی کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ مرکزی صنعتی سیکیورٹی فورس کے مطابق تمام اہم مقامات پر اہلکاروں کو الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے اور صورتحال پر مسلسل نظر رکھی جا رہی ہے۔
مرکزی و ریاستی حکومت کی سرگرمیاں
بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ نے زخمیوں کی عیادت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ منگل کی صبح وزارت داخلہ میں اعلیٰ سطحی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ “ہم تمام امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں، فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ دھماکے کی نوعیت کیا تھی۔ جب تک نیشنل سیکیورٹی گارڈ اور فرانزک ماہرین اپنی رپورٹ مکمل نہیں کرتے، کسی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکتا۔”
وزیر اعظم نریندر مودی کا ردِعمل
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے بیان میں کہا کہ “میں اُن خاندانوں سے اظہارِ افسوس کرتا ہوں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا۔ زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعاگو ہوں۔ حکومت متاثرین کی ہر ممکن مدد کر رہی ہے، اور میں نے وزیر داخلہ اور دیگر حکام سے صورتحال پر تفصیلی بریفنگ لی ہے۔”
Condolences to those who have lost their loved ones in the blast in Delhi earlier this evening. May the injured recover at the earliest. Those affected are being assisted by authorities. Reviewed the situation with Home Minister Amit Shah Ji and other officials.@AmitShah
— Narendra Modi (@narendramodi) November 10, 2025
عینی شاہدین کے بیانات
لال قلعہ کے قریب موجود ایک دکاندار نے بھارتی میڈیا کو بتایا کہ “میں نے اتنا زوردار دھماکہ کبھی نہیں سنا۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا، لوگ چیخ رہے تھے اور کچھ زخمی زمین پر پڑے تھے۔” ایک اور شہری کے مطابق پولیس اور امدادی ٹیمیں چند منٹوں میں موقع پر پہنچ گئیں اور زخمیوں کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔
دہلی میں سخت نگرانی
دہلی اور مضافاتی علاقوں کی سرحدوں پر پولیس نے ناکے قائم کر دیے ہیں۔ نوئیڈا سے دہلی میں داخل ہونے والی گاڑیوں کی سخت چیکنگ کی جا رہی ہے اور شہر بھر میں فضا کشیدہ ہے۔
پس منظر اور سیاسی تناظر
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب بہار سمیت بھارت کی مختلف ریاستوں میں انتخابات کے مراحل جاری ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دھماکوں کا وقت اور اس کی نوعیت غور طلب ہے کیونکہ ماضی میں بھی ایسے واقعات کو بعض سیاسی جماعتیں انتخابی فائدے کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔
مسلمانوں کے خلاف کارروائیاں اور بڑھتی کشیدگی
گزشتہ چند ہفتوں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں سیکیورٹی ادارے کئی مسلمانوں کو مشتبہ قرار دے کر گرفتار کر چکے ہیں۔ ہندوستان اخبار کے مطابق فرید آباد میں ایک کشمیری ڈاکٹر کے کرائے کے کمرے سے 14 بیگ برآمد کیے گئے، جن میں مبینہ طور پر 300 کلو آر ڈی ایکس، ایک اے کے 47 رائفل، 84 کارتوس اور مختلف کیمیکل شامل تھے۔ گجرات میں بھی تین مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔
ان کارروائیوں اور ان کی مذہبی شناخت کو نمایاں کرنے سے ملک کی اقلیتی برادری خصوصاً مسلمانوں میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی دوران آسام میں بنگلہ دیشی نژاد مسلمانوں کے گھروں کی مسماری اور اُن کے خلاف سخت اقدامات نے صورتِ حال کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے، جسے انسانی حقوق کے ماہرین مذہبی پولرائزیشن کی ایک واضح مثال قرار دیتے ہیں۔
پاکستان پر الزام عائد کرنے کی کوشش
دوسری جانب بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے دھماکے کے بعد جہاں انتہا پسند ہندتوا نظریے کے حامل افراد سوشل میڈیا پر اسے پاکستان کی جانب سے کیا گیا حملہ قرار دے رہے ہیں، وہیں افغان انٹیلیجنس ایجنسی جی ڈی آئی سے منسلک اکاؤنٹس بھی اس پروپیگنڈے میں پیش پیش ہیں۔ نئی دہلی دھماکہ جس کی نوعیت ابھی تک معلوم نہیں کی جا سکی اور بھارتی حکام نے بھی ابھی کوئی ایسا بیان جاری نہیں کیا، اس کے باوجود مخصوص افغان سوشل میڈیا اکاؤنٹس اسے پاکستان سے منسلک کر رہے ہیں۔
بعض اکاؤنٹس نے تو اس کی ذمہ داری کالعدم لشکر طیبہ پر بھی ڈال دی جس کیلئے ایک ایڈٹ کردہ تحریری بیان کا سہارا لیا گیا۔ جب کے دیگر صارفین بھی اسے پاکستان کی سازش قرار دے کر مختلف تنظیموں اور پاکستان کے خفیہ اداروں سے منسلک کرنے کی ناکام کوشش کر رہے۔ یاد رہے کہ یہ سب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں را اور جی ڈی آئی سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کے خلاف ایک ہی بیانیہ چلاتے ہیں اور پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ماہرین کی رائے
سماجی و سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ لال قلعہ کے قریب ہونے والا دھماکہ پہلگام طرز کی فالس فلیگ کارروائیوں کی یاد دلاتا ہے، جنہیں ماضی میں پاکستان مخالف بیانیہ بنانے اور انتخابی فائدے کے لیے استعمال کیا گیا۔ ان کے مطابق اگر تحقیقات غیر جانب دار انداز میں کی گئیں تو کئی پہلو سامنے آ سکتے ہیں۔
نئی دہلی کے اس المناک واقعے نے ایک بار پھر ملک میں سلامتی کی صورتحال، مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتی کارروائیوں اور سیاسی مفادات کے زیرِ اثر بیانیوں پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ دھماکے کی وجوہات کے بارے میں حتمی رپورٹ نیشنل سیکیورٹی گارڈ اور فرانزک ماہرین کے تجزیے کے بعد سامنے آئے گی۔