یورپ تیزی سے ایک عمر رسیدہ آبادی والا براعظم بنتا جا رہا ہے، جبکہ وسطی ایشیا کے بیشتر ممالک میں نوجوان آبادی کا تناسب بڑھ رہا ہے۔ یہ دونوں رجحانات آئندہ برسوں میں خطوں کی معاشی ترقی، روزگار کے مواقع اور سماجی ڈھانچوں پر گہرے اثرات مرتب کریں گے۔
دیکھا جائے تو اٹلی، جرمنی اور سپین جیسے ممالک میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد کا تناسب مسلسل بڑھ رہا ہے، جس کے نتیجے میں محنت کش آبادی کم رہی ہے، پینشن کے نظام پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور صحت کے مسائل اور اخرجات میں غیر متوقع اضافہ ہو رہا ہے۔
جبکہ اسکے برعکس ازبکستان، تاجکستان اور قازقستان جیسے وسطی ایشیائی ممالک میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد روزگار کے سلسلے میں داخل ہو رہی ہے جو نوجوانوں کی کمی کی جانب واضح اشارہ کر رہی ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق یورپ کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ اپنی عمررسیدہ آبادی کی دیکھ بھال کے نظام کو برقرار رکھے جبکہ وسطی ایشیا کو اپنی نوجوان آبادی کو معیاری تعلیم اور ہنر مندی کی تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تناظر میں اقوامِ متحدہ کی ایک مشترکہ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ممالک معیاری روزگار کے مواقع میں اضافہ کریں، خواتین، تارکین وطن اور بزرگ شہریوں کو محنت کی منڈی میں شامل کریں، ہنرمندی کے پروگراموں کو مزید بڑھایا جائے۔
دیکھیں: پاکستان کی معاشی ترقی میں بلیو اکانومی اہم کردار ادا کرسکتی ہے: وزیر خزانہ