افغانستان کی اسلامی امارت کے وزیر خارجہ نے استنبول میں ہونے والے حالیہ پاک افغان مذاکرات پر تفصیلی ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ پاکستان کے غیر حقیقی اور ناقابل عمل مطالبات تھے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان نے ہمیشہ توازن پر مبنی پالیسی اپنائی تاکہ خطے میں امن، تجارت اور تعاون کو فروغ دیا جا سکے۔
اسلامی امارت کی پالیسی توازن اور علاقائی روابط کا راستہ
وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلامی امارت نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ افغانستان کو ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھا جائے۔ ان کے مطابق اب بہترین موقع ہے کہ افغانستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرے، خطے میں تجارتی و ترانزٹ روابط بڑھائے، اور عالمی برادری کے ساتھ تعاون کو فروغ دے۔ افغانستان کی جغرافیائی حیثیت تجارت اور رابطوں کے لیے بے حد اہم ہے، اور اسی راستے کو امارت نے ترجیح دی ہے۔
پاکستانی فضائی حملے اور سرحدی خلاف ورزیاں
طالبان وزیر خارجہ نے الزام عائد کیا کہ گزشتہ چار برسوں میں پاکستان کی جانب سے متعدد مرتبہ افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں بمباری کی، دکانیں اور بازار تباہ کیے، اور کابل کی فضائی حدود تک کی خلاف ورزی کی۔ وزیر خارجہ کے مطابق اسلامی امارت نے ان اقدامات کے جواب میں ردعمل دیا کیونکہ خاموش رہنا ممکن نہیں تھا۔
مذاکرات کی نوعیت اور ناکامی کی وجوہات
وزیر خارجہ کے مطابق مذاکرات کے تین دور ہوئے پہلا قطر میں اور دو استنبول میں۔ افغان وفد قیادت کی مکمل اجازت، نیک نیتی اور سنجیدگی کے ساتھ شریک ہوا۔ تاہم ان کے مطابق انتہا پسند عناصر نے مذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں۔ پاکستانی وفد نے ایسے مطالبات کیے جو حقیقت سے دور تھے، جیسے کہ یہ ضمانت کہ پاکستان میں کوئی سیکورٹی واقعہ کبھی پیش نہیں آئے گا۔ وزیر خارجہ نے سوال اٹھایا کہ کیا ہم پاکستان کے محافظ ہیں، کیا ہمارے فوجی وہاں تعینات ہیں، یا ہم ان کے پولیس و سیکیورٹی اداروں کو کنٹرول کرتے ہیں؟ یہ غیر منطقی مطالبات ہیں۔
افغانستان اپنے شہریوں کو کسی کے حوالے نہیں کرے گا
طالبان وزیر خارجہ نے پاکستان کے اس مطالبے کو بھی مسترد کیا کہ افغان سرزمین سے تحریک طالبان پاکستان کے ارکان کو پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اپنے شہریوں کو کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کرے گا۔ ان کے مطابق اگر پاکستان اپنی سرحدوں پر چوکیاں، کیمرے اور فوج رکھتا ہے تو پھر نقل و حرکت کو کیوں نہیں روکا جا رہا؟ اگر حملہ آور بارڈر کراس کرتے ہیں تو یہ ان کی سیکیورٹی کی ناکامی ہے، افغانستان کی نہیں۔
پاکستان کے داخلی مسائل اور افغانستان پر الزام تراشی
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے اندرونی حالات، سیاسی انتشار، اقتصادی مسائل اور داخلی کشیدگی اس کی اپنی سلامتی پر اثر ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے مگر اسی طاقت کو مہاجرین، تاجروں اور عام شہریوں کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ ان کے مطابق سیاست اور تجارت کو انتقام اور جنگ سے الگ رکھنا چاہیے، کیونکہ ایسا رویہ دونوں ممالک کے مفاد میں نہیں۔
افغانستان نے اپنی ذمہ داریاں پوری کیں
وزیر خارجہ کے مطابق اسلامی امارت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے۔ افغانستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی، سرحدی سیکیورٹی مضبوط کی، اور نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو افغانستان کے اندرونی علاقوں میں منتقل کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہے، اب اگر کوئی سرحدی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری ان پر ہے جو حملے کر رہے ہیں۔
پاکستان میں طالبان مخالف پروپیگنڈا بے بنیاد قرار
وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے اندر بعض حلقے افغان امارت کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں، مگر وہ اس بات سے مطمئن ہیں کہ پاکستان کے عوام، علمائے کرام اور کئی سیاسی رہنما حقیقت کو سمجھتے ہیں اور امن چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان پاکستانی عوام کا احترام کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ دونوں ممالک میں خیر و دوستی قائم رہے۔
افغانستان اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا
اختتامی بیان میں طالبان وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر کوئی ملک افغانستان کی خودمختاری پر حملہ کرے گا تو اسلامی امارت دفاع کرے گی۔ ان کے مطابق افغانستان نے ہمیشہ امن اور تعاون کا راستہ چنا ہے، مگر اگر خودمختاری خطرے میں آئی تو افغان عوام اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے تیار ہیں۔
پاکستانی مؤقف اور ردعمل
پاکستانی وزارتِ خارجہ کے مطابق مذاکرات کی ناکامی کی اصل وجہ طالبان حکومت کی جانب سے تحریک طالبان پاکستان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف عملی کارروائی سے انکار ہے۔ اسلام آباد کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ افغان سرزمین سے ہونے والے حملوں کے باعث ہے۔ پاکستان کے مطابق طالبان نے نہ صرف اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں بلکہ دہشت گرد عناصر کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں۔
پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا، تاہم امن اور مذاکرات کا دروازہ بند نہیں کیا گیا۔
دیکھیں: پاک افغان مذاکرات کا تیسرا دور بے نتیجہ ختم، پاکستان کا وفد وطن واپس روانہ