نگلہ دیش میں طلبہ تنظیم ‘انقلاب مانچا’ کے مقتول رہنما عثمان ہادی کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی ہے۔ نماز جنازہ میں عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس سمیت ہزاروں افراد نے شرکت کی۔
شریف عثمان ہادی انڈیا کے ناقدین میں شمار ہوتے تھے اور انھیں گذشتہ ہفتے ڈھاکہ میں اُس وقت نشانہ بنایا گیا تھا جب وہ ایک مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔
چہرہ ڈھانپے ہوئے نامعلوم حملہ آوروں نے اُن پر گولی چلائی تھی جس کے بعد انھیں علاج کے لیے سنگاپور لے جایا گیا تاہم جمعرات کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گئے تھے۔
سنیچر کی دوپہر 12 بجے کے بعد سے بڑی تعداد میں لوگ پارلیمنٹ کی عمارت کے علاقے میں جمع ہونا شروع ہو گئے۔ اس سے قبل صبح سے ہی پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے والی سڑک پر ٹریفک روک دی گئی تھی۔
عثمان ہادی کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ مشاورتی کونسل کے اراکین، مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما پارلیمنٹ کی عمارت کے احاطے میں پہنچے تھے۔
پارلیمنٹ کی عمارت اور آس پاس کی سڑکوں پر فوج اور بارڈر گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) سمیت قانون نافذ کرنے والے افسران کی ایک بڑی تعداد کو تعینات کیا گیا تھا۔ پولیس نے چوکیاں قائم کر کے آنے والوں کی تلاشی لی۔
عثمان ہادی کو ڈھاکہ یونیورسٹی کے احاطے میں قومی شاعر قاضی نذر الاسلام کے مقبرے میں دفن کیا جائے گا۔
دوسری جانب عثمان ہادی کی ہلاکت کے بعد بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ جمعے کی شب لکشمی پور کے بھوانی گنج میں شرپسندوں نے مبینہ طور پر ایک مقامی بی این پی لیڈر کے گھر کو آگ لگا دی ہے۔ واقعے میں ایک بچہ ہلاک اور تین زخمی ہوگئے۔
محمد یونس کا خطاب
نگلہ دیش میں عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس نے کہا ہے کہ عثمان ہادی ہمیشہ بنگلہ دیشیوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔
انھوں نے یہ الفاظ سنیچر کی شب نیشنل پارلیمنٹ بلڈنگ کے جنوبی پلازہ میں منعقدہ عثمان ہادی کی نمازِ جنازہ میں شرکت کے بعد کہے۔
چیف ایڈوائزر نے کہا کہ ’پورے بنگلہ دیش میں کروڑوں لوگ اس لمحے کا انتظار کر رہے ہیں اور بیرونِ ملک موجود بنگلہ دیشی بھی ہادی کی باتیں سننے کے منتظر ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’پیارے ہادی، تمہاری باتیں اور تمہارا نظریہ سب کا سب لوگوں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے۔ ہم انھیں دل و جان سے قبول کر رہے ہیں۔ یہ خیالات ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں تاکہ ہم ان پر عمل کر سکیں۔‘

عثمان ہادی کے بھائی ابو بکر صدیق نے اپنے بھائی کے جنازہ سے قبل قومی اسمبلی کی عمارت کے جنوبی پلازہ میں تقریر کرتے ہوئے چند سوالات اُٹھائے اُن کا کہنا تھا کہ ’دارالحکومت میں دن دہاڑے عثمان ہادی کو گولی مارنے کے بعد ان کے قاتل کیسے فرار ہو گئے؟
ابو بکر صدیق نے کہا کہ سات سے آٹھ دن گزر جانے کے باوجود قاتلوں کو کیوں گرفتار نہیں کیا جا سکا؟ انھوں نے عثمان ہادی کے قاتلوں کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ بھی کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’عثمان ہادی ہم سب بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا اور آج مجھے اس کا جنازہ اٹھانا پڑ رہا ہے۔‘
انقلاب مانچا کے ترجمان شریف عثمان ہادی کی تدفین ڈھاکہ یونیورسٹی کی مرکزی مسجد کے قریب قومی شاعر قاضی نذرالاسلام کے مزار کے احاطے میں کر دی گئی ہے۔
اس سے قبل قومی اسمبلی کی عمارت کے جنوبی پلازہ میں عثمان ہادی کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ جنازے میں چیف ایڈوائزر پروفیسر محمد یونس، مشاورتی کونسل کے اراکین اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما و کارکنان نے شرکت کی۔
نمازِ جنازہ کے بعد عثمان ہادی کا جنازہ ڈھاکہ یونیورسٹی لے جایا گیا۔