یمن کی خانہ جنگی اس وقت نازک ترین موڑ میں داخل ہو چکی ہے۔ امارات کی حمایت یافتہ جنوبی عبوری کونسل نے مشرقی حضرموت کے شہر سیئون پر عملی کنٹرول حاصل کرنے کا اعلان کیا ہے، جو اس سے قبل سعودی حمایت یافتہ حضرموت قبائلی اتحاد کے زیرِ اثر تھا۔ جنوبی عبوری کونسل نے قبائلی اتحاد پر اخوان المسلمون سے وابستگی کا الزام عائد کرتے ہوئے اپنی کارروائی کو راستہ فراہم کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حضرموت یمن کے تقریباً ایک تہائی رقبے کا حامل ہے اور ملک کے تقریباً 80 فیصد تیل کے ذخائر یہیں موجود ہیں۔ اسی بنا پر یہ خطہ غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔
سعودی عرب کا ردِعمل
جنوبی عبوری کونسل کے اس اقدام کے بعد سعودی عرب نے حضرموت کی صورتحال کو انتہائی سنجیدگی سے لیتے ہوئے اسے اپنے جنوبی سرحدی تحفظ کے لیے براہِ راست چیلنج قرار دیا ہے۔ اسی تناظر میں جنوبی عبوری کونسل کی پیش قدمی کے فوراً بعد یمن کی فضائی حدود عارضی طور پر بند کی گئیں، جس سے بین الاقوامی پروازوں میں تعطل پیدا ہوا۔ عدن ایئرپورٹ پر پروازیں معطل ہونے سے سینکڑوں مسافر پھنس گئے اور سفری بحران بڑھ گیا۔ سعودی حکام کے نزدیک مذکورہ اقدام نہ صرف اشتعال انگیز ہے بلکہ یمن کی علاقائی سالمیت کے لیے بھی سنگین خطرہ کا باعث ہے۔
جنوبی عبوری کونسل کی سرگرمیاں
جنوبی عبوری کونسل نے حضرموت میں اضافی جنگجو اور فوجی سازوسامان تعینات کر کے پورے علاقے پر اپنی گرفت مزید مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ دوسری جانب سعودی حمایت یافتہ قبائل کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی جنگی صورتحال کے لیے تیار رہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر دباؤ اور تناؤ برقرار رہا تو حضرموت وہ مقام بن سکتا ہے جہاں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان شدید تصادم جنم لے سکتا ہے۔
مسائل کی بنیادی وجہ
حالیہ تناؤ دراصل خطے میں دونوں ریاستوں کی متضاد حکمتِ عملیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ یمن متحد رہے اور حوثی باغیوں کے ساتھ کسی درمیانے راستے کے ذریعے جنوبی سرحدیں بھی محفوظ رہیں۔ جبکہ اس کے برعکس امارات جنوبی یمن کی علیحدگی کی حمایت کرتا ہے اور خطے میں اسرائیل کے ساتھ ایک متوازی سلامتی ڈھانچہ تشکیل دینا چاہتا ہے۔ اسی فیصلے کے تحت قطر سوڈان کی قوات الدعم السریع سمیت متعدد مسلح گروہوں کو مالی اور عسکری مدد بھی فراہم کرتا ہے۔ یاد رہے کہ ماضی قریب میں ولی عہد محمد بن سلمان نے دورۂ امریکا کے دوران صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امارات پر دباؤ ڈالیں کہ وہ سوڈانی قوات الدعم السریع کی مدد بند کرے، جو اس وقت انسانیت کے قتل میں ملوث ہے۔
تناؤ کی سنگینی
ماہرین کے مطابق سعودی عرب اور امارات کے تعلقات میں تناؤ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے۔ 2021 میں امارات نے اوپیک کے تیل پیداوار میں کمی کے فیصلے سے انکار کر کے دونوں ملکوں کو کشیدگی کے قریب پہنچا دیا تھا۔ مگر موجودہ صورتحال ماضی کی بنسبت کہیں زیادہ حساس اور سنگین نوعیت کی ہے کیونکہ یہ معاملہ براہِ راست سعودی عرب کی سرحدی سلامتی اور خطے کے استحکام سے جڑا ہوا ہے۔
تیل کے ذخائر اور معیشت
حضرموت پر کا کنٹرول کسی بھی فریق کے لیے فیصلہ کُن حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف یمن کی معیشت کی شہ رگ ہے بلکہ توانائی کی سیاست پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اور اگر STC کی پیش قدمی کے باعث تیل کی پیداوار متاثر ہوتی ہے تو اس کے نتائج عالمی منڈی پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
ماہرین کی رائے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حضرموت پر جنوبی عبوری کونسل کا قبضہ سعودی عرب کے لیے براہِ راست سلامتی چیلنج ہے۔ امارات کی جانب سے جنوبی یمن کی علیحدگی کی حمایت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر رہی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو عرب دنیا کے اہم ممالک کے درمیان جنگی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جس کے اثرات پورے مشرقِ وسطیٰ تک پھیل سکتے ہیں۔
اسی طرح حضرموت کی بدلتی صورتحال نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں کشیدگی پیدا کر دی ہیں۔ یمن کا یہ مقام نہ صرف علاقائی سطح پر کشیدگی بڑھا رہا ہے بلکہ خلیجی سیاست میں بھی نئی گروہ بندیوں کا اشارہ دے رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر فریقین نے اپنے مسائل کو اگر سفارتکاری کے ذریعے حل نہ کیا تو یہ صورتحال خطے کے استحکام کے لیے ایک سننگین خطرہ بن سکتی ہے۔
دیکھیں: جنگ نہیں، مذاکرات ہی پاک افغان مسئلے کا مستقل حل ہے؛ انوار الحق کاکڑ