افغانستان کے وزیر داخلہ خلیفه سراج الدین حقانی نے خوست میں مقامی علما اور معززین سے ملاقات میں پاکستان آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ان بیانات پر ردعمل ظاہر کیا کہ اسلامی امارت نے اپنا موجودہ راستہ منتخب کیا ہے اور ٹی ٹی پی کا ذکر کیا۔ حقانی نے کہا کہ اس طرح کے بیانات پہلے امریکی سابق صدر جارج ڈبلیو بش بھی دیتے رہے ہیں۔
انہوں نے تمام تر ثبوتوں اور عالمی رپورٹس کے برعکس اس بات پر زور دیا کہ افغان لوگ دوسروں کے گھروں کو تباہ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے اور پاکستان حکومت اور ٹی ٹی پی دونوں ایک ہی ملک کا حصہ ہیں اور اپنی مسائل کو اپنے اندر حل کرنا چاہیے۔
یاد رہے کہ سراج الدین حقانی اس وقت خوست میں ہیں اور 11 دسمبر کو خلیل حقانی کی وفات کا ایک سال مکمل ہوا ہے۔
پاکستان نے خلیفه سراج الدین حقانی کے بیانات کو مسترد کیا اور کہا کہ کراس بورڈر دہشت گردی کوئی بیانیہ نہیں بلکہ ایک دستاویزی سکیورٹی حقیقت ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ ٹی ٹی پی کی قیادت، تربیت، لاجسٹکس اور آپریشنز کی پناہ گاہیں افغان زمین پر ہیں، جیسا کہ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم اور سگار رپورٹس میں بارہا ذکر ہوا ہے۔ پاکستان کے مطابق، حملے سرحد کے پار سے آتے ہیں، اس لیے ذمہ داری کو صرف داخلی معاملے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔
ٹی ٹی پی اور پاکستان کے تنازع کو صرف داخلی مسئلہ قرار دینا طالبان کی دوحہ معاہدے کے بھی خلاف ہے، جس میں وعدہ کیا گیا تھا کہ افغان زمین کو دیگر ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ بات چیت ممکن ہے، لیکن صرف اس وقت جب عملی اقدامات کیے جائیں جو سرحدی خطرات کو ختم کریں اور الفاظ کو عملی حقیقت کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔ علاقائی استحکام کا دارومدار بیانات پر نہیں بلکہ قابلِ یقین اقدامات پر ہے؛ بغیر اس کے، ایسے بیانات صرف اعتماد کے خلاء کو بڑھاتے ہیں۔
دیکھیں: پاکستان کا بھارتی وزیرِ خارجہ کے بے بنیاد اور اشتعال انگیز بیان پر شدید ردعمل