جب تک افغان جانب سے فائر بندی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، پاکستان سیزفائر برقرار رکھے گا۔

November 7, 2025

حکومتی ذرائع کے مطابق آئندہ لائحہ عمل پر غور کے لیے اعلیٰ سطحی مشاورت جاری ہے جبکہ مزید تفصیلات سامنے آنے کا انتظار ہے۔

November 7, 2025

پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے، خاص طور پر تنظیموں جیسے تحریکِ طالبانِ پاکستان اور بلوچ لبریشن آرمی کی کارروائیاں ملک کی داخلی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔

November 7, 2025

حقانی نیٹ ورک کا تعلق عرب اور غیر ملکی جنگجوؤں سے اس وقت سے ہے جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ جاری تھی۔

November 7, 2025

افغان طالبان کے اندرونی اختلافات بے نقاب؛ قندھاری اور حقانی قیادت آمنے سامنے

حقانی نیٹ ورک کا تعلق عرب اور غیر ملکی جنگجوؤں سے اس وقت سے ہے جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ جاری تھی۔

1 min read

افغان طالبان کے اندرونی اختلافات بے نقاب؛ قندھاری اور حقانی قیادت آمنے سامنے

قندھاری گروپ طالبان تحریک کا بنیادی مرکز مانا جاتا ہے۔ اس کا آغاز جنوبی افغانستان کے صوبہ قندہار سے ہوا، جہاں سے تحریک کے بانی ملا محمد عمر کا تعلق تھا۔

November 7, 2025

افغان طالبان کی تنظیم ایک متحد اکائی نہیں بلکہ مختلف دھڑوں پر مشتمل ہے، جن میں سب سے طاقتور دو گروپ قندھاری دھڑا اور حقانی نیٹ ورک سمجھے جاتے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان اختلافات نہ صرف طاقت کی تقسیم بلکہ جغرافیائی، تاریخی اور نظریاتی بنیادوں پر بھی گہرے ہیں۔

قندھاری دھڑا: طالبان کی اصل بنیاد


قندھاری گروپ طالبان تحریک کا بنیادی مرکز مانا جاتا ہے۔ اس کا آغاز جنوبی افغانستان کے صوبہ قندہار سے ہوا، جہاں سے تحریک کے بانی ملا محمد عمر کا تعلق تھا۔ اسی علاقے سے موجودہ اعلیٰ نظریاتی رہنما ہیبت اللہ اخوندزادہ کا اثرورسوخ بھی قائم ہے۔ قندھاری دھڑے کے اراکین زیادہ تر درانی پشتون قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، جو طالبان کے روایتی اور نظریاتی پہلوؤں کے محافظ سمجھے جاتے ہیں۔

حقانی نیٹ ورک: مشرقی افغانستان کی طاقت


اس کے برعکس حقانی نیٹ ورک ایک علیحدہ اور نسبتاً خودمختار گروہ کے طور پر ابھرا۔ اس کی قیادت جلال الدین حقانی نے کی، جو مشرقی افغانستان کے لویہ پکتیا خطے سے تعلق رکھتے تھے اور زدران قبیلے سے وابستہ تھے۔ یہ گروہ 1990 کی دہائی کے وسط میں طالبان میں شامل ہوا اور ملا عمر کی قیادت تسلیم کی۔ تاہم، طالبان کے ابتدائی دور میں حقانی نیٹ ورک کو زیادہ اہمیت نہ دی گئی اور جلال الدین حقانی کو صرف سرحدی و قبائلی امور کی وزارت سونپی گئی۔

عملی فرق اور جنگی حکمتِ عملی


قندھاری گروپ کی توجہ زیادہ تر دیہی علاقوں میں روایتی جنگی کارروائیوں اور علاقے کے کنٹرول پر مرکوز رہی۔ اس کے برعکس، حقانی نیٹ ورک اپنی پیچیدہ اور ہائی پروفائل کارروائیوں کے باعث مشہور ہوا، جن میں کابل اور دیگر بڑے شہروں میں بڑے پیمانے پر حملے شامل ہیں۔ موجودہ دور میں سراج الدین حقانی، جو کابل میں قائمہ مقام وزیر داخلہ ہیں، اس نیٹ ورک کی قیادت کر رہے ہیں۔

بیرونی تعلقات اور علاقائی اثرات


دونوں دھڑوں کے بیرونی تعلقات بھی ان کی جغرافیائی موجودگی کے مطابق مختلف ہیں۔ مشرقی افغانستان میں موجود حقانی نیٹ ورک کی تحریک طالبان پاکستان سے گہرے روابط ہیں اور اسے ایک اتحادی اور ممکنہ بیک اپ فورس کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

دوسری جانب، جنوبی اور مغربی علاقوں میں جڑے قندھاری گروہ کا جھکاؤ ایران کی سرحد کے قریب ہونے کے باعث بلوچ علیحدگی پسند تنظیم کی سرپرستی کی طرف زیادہ ہے۔

عرب جنگجوؤں سے تعلقات اور عالمی اثرات


حقانی نیٹ ورک کا تعلق عرب اور غیر ملکی جنگجوؤں سے اس وقت سے ہے جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ جاری تھی۔ یہ تعلقات آج بھی قائم ہیں اور اس سے انہیں مالی اور افرادی وسائل کی ایسی مدد حاصل ہے جو قندھاری قیادت سے الگ ہے۔

اندرونی کشمکش اور علاقائی عدم استحکام


طالبان کے ان دونوں اہم دھڑوں کے درمیان طاقت اور اثرورسوخ کی یہ کشمکش نہ صرف تنظیم کے اندرونی ڈھانچے کو متاثر کر رہی ہے بلکہ خطے کی مجموعی سلامتی اور جغرافیائی استحکام کے لیے بھی خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔

یہ اندرونی مقابلہ اور بیرونی عسکری اتحادوں کا پیچیدہ جال خطے میں جاری غیر یقینی صورتحال کو مزید گہرا کر رہا ہے۔

متعلقہ مضامین

جب تک افغان جانب سے فائر بندی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، پاکستان سیزفائر برقرار رکھے گا۔

November 7, 2025

حکومتی ذرائع کے مطابق آئندہ لائحہ عمل پر غور کے لیے اعلیٰ سطحی مشاورت جاری ہے جبکہ مزید تفصیلات سامنے آنے کا انتظار ہے۔

November 7, 2025

رائے دیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *