بھارت میں ایسے مطالبات سامنے آ رہے ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ ملک کو عالمی ایٹمی حملے کی صلاحیت حاصل کرنی چاہیے، حتیٰ کہ امریکہ کو نشانہ بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ مطالبات اس دوہرے معیار کو نمایاں کرتے ہیں جو بھارت اور پاکستان کے ایٹمی نظریات پر عالمی سطح پر لاگو ہوتا ہے۔ پاکستان کی ایٹمی حکمتِ عملی ہمیشہ خطے تک محدود رہی ہے، جبکہ بھارت اب عالمی طاقت بننے کی خواہش ظاہر کر رہا ہے۔
حال ہی میں ریٹائرڈ بھارتی جنرل راج شکلا نے واضح طور پر کہا کہ بھارت کو ایسی ایٹمی قوت بنانی چاہیے جو امریکی شہروں کو نشانہ بنا سکے، بالکل اسی طرح جیسے شمالی کوریا نے اپنایا ہے۔ یہ کوئی مبہم تجویز نہیں بلکہ ایک سنجیدہ فوجی آواز ہے جو بھارت کے ایٹمی نظریے میں ایک خطرناک اور بنیادی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔
بھارت کے میزائل پروگرام بھی اس سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔ اس وقت بھارت کے پاس اگنی-5 میزائل موجود ہے جس کی رینج 7,000 سے 8,000 کلومیٹر ہے۔ اس کے علاوہ بھارت اگنی-6 تیار کر رہا ہے، جس کی رینج 9,000 سے 16,000 کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے۔ اس صلاحیت سے بھارت کسی بھی بڑے عالمی دارالحکومت کو ہدف بنا سکتا ہے، حتیٰ کہ امریکہ کو بھی۔
اس کے برعکس پاکستان کی ایٹمی حکمتِ عملی ہمیشہ دفاعی اور بھارت تک محدود رہی ہے۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام صرف دفاعی صلاحیت پر مبنی ہے اور صرف جنوبی ایشیا کی سلامتی کی مجبوریوں کے تحت تشکیل پایا ہے۔ اس کے باوجود عالمی برادری مسلسل پاکستان کو غیر مستحکم ایٹمی ریاست کے طور پر پیش کرتی رہی ہے۔
بھارت کے کھلے عام عالمی طاقتوں کو نشانہ بنانے کے عزائم، نہ صرف چین بلکہ امریکہ جیسے ممالک کے خلاف بھی، بین الاقوامی نظام کے لیے خطرناک ہیں۔ اگر عالمی طاقتیں اس خطرناک سوچ کو چیلنج نہ کریں تو یہ دراصل ایسے ایٹمی ماڈل کی تائید ہوگی جو دنیا کے توازن کو بگاڑ سکتا ہے۔
آج جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی ایٹمی کشیدگی پاکستان کی دفاعی حکمت عملی نہیں بلکہ بھارت کا یہ عالمی ایٹمی عزائم ہیں جو کھلے عام ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
دیکھیں: کینیڈا نے بھارت کے لارنس بشنوئی گینگ کو دہشتگرد تنظیم قرار دیدیا