شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے اہم نکات اٹھاتے ہوئے عالمی برادری، خصوصاً علاقائی ممالک پر زور دیا کہ وہ طالبان حکومت پر ایک جامع سیاسی نظام کے قیام کے لیے دباؤ بڑھائیں تاکہ افغانستان میں دیرپا امن، سلامتی اور استحکام کو یقینی بنایا جا سکے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ افغانستان میں صرف طالبان کی شمولیت پر مبنی حکومت داخلی ہم آہنگی کے لیے ناکافی ہے۔ افغان طالبان نے اب تک بین الاقوامی برادری کے تین بنیادی مطالبات کو مسلسل نظر انداز کیا ہے۔ ان مطالبات میں ایک جامع اور نمائندہ حکومت کا قیام، انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا خاتمہ اور دہشت گرد تنظیموں سے روابط منقطع کرنا شامل ہیں۔
انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اگرچہ طالبان حکومت ایک سیاسی حقیقت بن چکی ہے، تاہم ان کی طرف سے دہشت گرد گروہوں کی حمایت کسی صورت نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مفادات کو انسداد دہشت گردی کے مقاصد پر ترجیح دینا خطے کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
اسحاق ڈار نے عالمی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، روس اور چین، کو متنبہ کیا کہ طالبان کے ساتھ صرف سفارتی یا تجارتی روابط مضبوط کرنے سے دہشت گردی کے خطرات کم نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کا غیر جمہوری رویہ اور ناقابل فہم طرز حکومت دوحہ معاہدے کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، جس سے افغانستان میں جمہوری امیدیں دم توڑتی جا رہی ہیں۔
آخر میں انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے ریجنل اینٹی ٹیررازم اسٹرکچر پر زور دیا کہ وہ افغانستان سے اٹھنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط علاقائی حکمت عملی ترتیب دے، کیونکہ یکطرفہ اقدامات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے۔