پاکستان نے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے استنبول مذاکرات سے متعلق دیے گئے بیانات کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کابل کی جانب سے پیش کیا گیا مؤقف حقائق کے منافی ہے۔
حکام نے واضح کیا کہ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ یکساں اور اصولی رہا ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف کسی بھی سرگرمی کے لیے استعمال نہ ہو۔
افغان ترجمان کا بیان اور اس کا پس منظر
اسلامی امارت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ استنبول مذاکرات کے دوران افغان فریق نے پاکستان کو پیشکش کی تھی کہ وہ ان افراد کو ملک بدر کرنے کے لیے تیار ہیں جنہیں اسلام آباد سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے، مگر پاکستان نے یہ پیشکش قبول نہیں کی۔
Islamic Emirate offered to deport migrants, Pakistan rejected proposal: Mujahidhttps://t.co/oRyAGB7KcG
— Ariana News (@ArianaNews_) November 1, 2025
The spokesperson for the Islamic Emirate, Zabihullah Mujahid, has said that during the Istanbul negotiations, the Pakistani side was informed that the Islamic Emirate was… pic.twitter.com/xwRodFMP8d
ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق پاکستان نے کہا کہ ان افراد کو افغانستان کے اندر ہی کنٹرول کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی امارت کی پالیسی مہاجرین کو ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دیتی، اور اگر پاکستان کسی شخص کے بارے میں مصدقہ معلومات فراہم کرے تو کارروائی کی جائے گی۔افغان ترجمان نے یہ متنازع دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان کی حالیہ سرگرمیاں اس بات کا عندیہ دیتی ہیں کہ شاید اسلام آباد امریکہ کی واپسی کے لیے بگرام ائربیس پر ماحول سازگار بنانا چاہتا ہے۔
پاکستان کا واضح مؤقف
پاکستان نے ان تمام دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے دوران اسلام آباد نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ افراد جو افغانستان میں موجود ہیں اور براہِ راست پاکستان کے لیے خطرہ ہیں، انہیں یا تو کنٹرول، گرفتار یا حراست میں لیا جائے۔
حکام نے بتایا کہ جب افغان فریق نے کہا کہ ان میں سے بعض افراد پاکستانی شہری ہیں، تو پاکستان نے فوراً تجویز دی کہ ایسے افراد کو مقررہ سرحدی راستوں سے پاکستان کے حوالے کیا جائے۔ یہ تجویز نہ صرف پاکستان کی دیرینہ پالیسی کے مطابق تھی بلکہ بین الاقوامی ضابطوں سے بھی مطابقت رکھتی ہے۔
افغان دعوے “گمراہ کن” قرار
پاکستانی حکام کے مطابق افغان ترجمان کا یہ کہنا کہ پاکستان نے “ڈیپورٹیشن آفر” مسترد کر دی، سراسر غلط تاثر ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ سکیورٹی ویریفکیشن اور قانونی طریقہ کار پر مبنی رہا ہے۔
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے عملی تعاون اور ٹھوس اقدامات ضروری ہیں، نہ کہ بیان بازی اور الزام تراشی۔
امریکی موجودگی سے متعلق الزام “بے بنیاد”
پاکستان نے ذبیح اللہ مجاہد کے اس بیان کو بھی مسترد کیا کہ پاکستان امریکہ کی واپسی کے لیے سازگار حالات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ حکام کے مطابق، یہ الزام “بلا ثبوت اور بے بنیاد” ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
اسلام آباد کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی بھی بیرونی فوجی موجودگی کے حق میں نہیں ہے اور خطے میں امن، استحکام اور خودمختاری کے اصولوں پر یقین رکھتا ہے۔
دوطرفہ مکینزم پر پاکستان کا عزم
پاکستان نے ایک بار پھر اعادہ کیا کہ وہ افغانستان کے ساتھ موجودہ دوطرفہ مکینزم، بشمول استنبول مذاکرات کے فریم ورک، کو مؤثر بنانے کا خواہاں ہے تاکہ سرحدی نظم و ضبط اور مشترکہ سکیورٹی یقینی بنائی جا سکے۔
اسلام آباد نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات باہمی احترام اور تعاون کی بنیاد پر آگے بڑھنے چاہییں، اور ایسے بیانات جو زمینی حقائق کے منافی ہوں، نہ صرف مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خطے کے امن کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔